کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 125
سوقيانہ اعتراضات اور الزامات كى زد ميں رہتے ہيں ۔ تعليمى ادارے اور تحقیق وتاليف كسى تعلیمى ادارے كے ساتھ جب تحقیق كا تذكرہ كيا جاتا ہے تو اس كا مطلب ياتو يہ ہوسكتا ہے كہ ا س ادارے سے وابستہ اور فیض يافتہ اہل علم نے تحقیق كے ميدان ميں كيا كارنامے انجام ديے ہيں ۔ اس مفہوم كے مطابق دينى مدارس كے فضلااور فیض يافتہ طلبہ كئی عصرى يونيورسٹيوں ميں اعلىٰ تحقیقى كام كرچكے ہيں اور اب بهى كررہے ہيں ، اكثر جامعات ميں اسلامى شعبوں ميں كام كرنے والے حضرات كا تعلق كسى نہ كسى واسطے مدارس سے رہا ہے۔ ايسے ہى مدارس كے ان فضلا نے بعد از فراغت ميدانِ تحقیق ميں مختلف موضوعات پر دادِ تحقیق دى ہے اور موجود ہ دينى لٹريچر زيادہ ترانہى كى كاوشوں كا مرہونِ منت ہے۔ ليكن تحقیق كا يہ تصورغالباً اس وقت زير بحث نہيں ۔ ہمارے پيش نظر اس وقت تحقیق كا وہ سفر ہے جو تعلیمى ادارہ كے اندر رہتے ہوئے دورانِ طالب علمى اپنے اساتذہ كى نگرانى ميں طے كيا جاتا ہے۔اس نظام كى رو سے تعليم كى اعلىٰ ترين ڈگرى تحقیق كى بنياد پر دى جاتى ہے۔ ’ تحقیق اور اُصول تحقیق‘ پر پاكستانى يونيورسٹيوں ميں پڑهائى جانے والى كتاب كے مصنف ڈاكٹر گيان سنگھ كے بقول : ” تحقیق كى دو قسميں كى جاسكتى ہيں جو كسى بهى علم وفن كے لئے درست ہيں : سندى او رغير سندى تحقیق … سندى تحقیق كى پہلى ڈگرى پى ايچ ڈى ہے جو آكسفورڈ ،الٰہ آباد اور بعض دوسرى يونيورسٹيوں ميں ڈى فل بهى كہلاتى ہے، اس سے آگے كى ڈگرى انسانيات اور سوشل سائنسز ميں ڈى لٹ( ڈاكٹر آف لٹريچر) ہے اور سائنس ميں ڈى ايس سى كاچلن پى ايچ ڈى كے بعد ہوا ہے۔امريكى يونيورسٹيوں ميں پى ايچ ڈى كے اوپركوئى ريسرچ ڈگرى نہيں ہوتى ۔ دلى اور مسلم يونيورسٹى ميں بهى يہ چند برسوں سے رائج ہوئى ہے۔ ہندوستان ميں اب بهى كئى يونيورسٹيوں مثلاً عثمانيہ، جواہر لال نہرو يونيورسٹى، نئى دِلّى اور مركزى يونيورسٹى حيدر آباد ميں يہ ڈگرى نہيں ہے۔ ايم اے او رپى ايچ ڈى كے بيچ ايك ڈگرى ايم فل كے نام سے وضع كى گئى ہے۔“ ( ص 14،15) يہ تمام اعلىٰ تحقیقى ڈگرياں دراصل ’تخليق علم‘كى بنياد پرہوتى ہيں ۔ دوسرى طرف ان