کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 124
تعلق ہى برطانوى سركار كے ہاں بغاوت كا مجرم ہونے كا كافى ثبوت سمجھا جانے لگا۔ فرنگى حكومت كے مدارس كے خلاف اس متعصبانہ پروپيگنڈے كا ہى يہ نتيجہ ہے كہ آج جديد تعليم يافتہ طبقہ كے ہاں اُس نظامِ تعليم كا كوئى قابل ذكر مقام نہيں ہے جو مسلمانوں كا ہميشہ سے اصل نظامِ تعليم رہا ہے۔٭ بلكہ ہر دم يہ مدارس اور اس سے وابستہ طلبا اور علما جديد حلقوں كے ٭ یوں تو یہ بات دلائل کی محتاج نہیں لیکن آج اس اہم نکتہ کو بالکل نظر انداز کردیا گیا ہے جس کا نتیجہ ایک طرف مدارس کی کسمپرسی اور بد حالی کی صورت میں نکلا ہے تو دوسری طرف مسلمان اپنے اصل علمی وایمانی جوہر سے محروم ہوکر اپنے شاندار ماضی سے بھی کٹ گئے ہیں ۔ مسلمانوں کا تعلیمی نظام انہی مدارس سے وابستہ تھا ۔ مؤرخ ’تاریخ فرشتہ‘ اور صاحب ِ’تاج الماثر‘ کے مطابق برصغیر میں دینی مدارس سلطان محمود غزنوی رحمۃ اللہ علیہ اور سلطان غوری رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ہی قائم ہوگئے تھے۔ سلاطین ِدہلی اور شہنشاہانِ مغلیہ نے پورے برصغیر میں جگہ جگہ عظیم الشان درسگاہیں قائم کیں ۔ ایسے ہی سلاطین ہند کے حالات میں بکثرت مذکور ’عمارات وبقاع خیر‘ سے مراد دینی مدارس مکتب ، مسجدیں اور خانقاہیں ہی ہیں ۔ (ہندوستان کی قدیم اسلامی درسگاہیں از ابو الحسنات ندوی ص: ۱۰) صاحب ِتاریخ فرشتہ نے سلطان غزنوی کے جانشین شہاب الدین مسعود کے متعلق لکھا ہے کہ اس نے حدودِ سلطنت میں بکثرت مدارس قائم کئے۔مشہور مصری مصنف قلقشندی کے بقول سلطان محمد تغلق کے زمانہ میں ’’صرف ہند کے پایۂ تخت دہلی میں ہزار کے قریب مدارس تھے، ایک شافعی مکتب ِفکر اور باقی حنفی مکتب ِفکر کے۔‘‘ (صبح الاعشیٰ: ۵/۶۹ طبع مصر) سلطان اورنگزیب عالمگیر کے زمانے میں سندھ کے صرف ایک شہر ٹھٹھہ میں مختلف علوم وفنون کے ۴ سو مدارس تھے۔ (ہندوستان میں عہد ِعالمگیر از مرزا سمیع اللہ بیگ) برصغیر کے قدیم اسلامی شہروں دلی، آگرہ، لاہور، پشاور، ٹھٹھہ، جونپور، احمد آباد، اور گجرات وغیرہ میں قدیم مساجد کے ساتھ چھوٹے حجروں کا وسیع سلسلہ انہی مدارس کی یادگار ہے۔اس نظام تعلیم کے بارے میں ڈاکٹر ہنٹر لکھتا ہے : ’’ مسلمان اس طریقہ تعلیم سے اعلیٰ قابلیت اور دنیوی تربیت حاصل کرتے تھے۔ ہم اپنے دورِ حکومت کے پچھلے پچھتّر سال میں انتظامِ ملک کی خاطر اس طریقہ تعلیم سے متواتر فائدہ اٹھاتے رہے ۔ اس دوران ہم نے اپنا طریقہ تعلیم بھی رائج کرنا شروع کردیا۔ پھر جونہی ایک نسل اس نئے طریقے کے تحت پیدا ہوگئی، ہم نے مسلمانوں کے پرانے طریقے کوخیرباد کہہ دیا جس سے مسلمان نوجوانوں پر ہرقسم کی سرکاری زندگی کا دروازہ بند ہوگیا۔‘‘وہ مزید لکھتا ہے :’’اس سے ہزاروں پرانے خاندان تباہ ہوگئے اور مسلمانوں کا پرانا نظام جس کا دارو مدار اوقاف ومعافیات پر تھا [وسائل لے لینے سے] تہ وبالا ہوگیا،مسلمانوں کے تعلیمی ادارے ۱۸ سال کی مسلسل لوٹ کھسوٹ سے کے بعد یک قلم مٹ گئے۔‘‘ اس سے قبل محکمہ تعلیم میں سو فیصد مسلمان ہوتے تھے کیونکہ وہ اس معلمی کو عبادت سمجھ کرکرتے تھے، لیکن بعد میں بقول ہنٹر کلکتہ میں کوئی ایسا دفتر نہ رہا جہاں مسلمان کو معمولی سے معمولی نوکری مل سکے۔ (رپورٹ قومی کمیٹی برائے دینی مدارس ، حکومت ِپاکستان ۱۹۷۹ء)