کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 123
عرصے بعد مولانا ابوالحسنات ندوى نے اس نظامِ تعليم كے تاريخى خدوخال كو تحقیقى اُسلوب ميں پيش كيا، جس كى رو سے انہوں نے برصغیر كے نظامِ تعليم كو چار اور پانچ ادوار ميں تقسيم كيا ہے۔ واضح رہے كہ اسى نظامِ تعليم كے تحت اندلس كى درس گاہوں ميں شريعت وزبان كے علوم كے علاوہ كيميا، فلكيات، ہندسہ، طب، نباتيات، حيوانيات، فلكيات اور فلسفہ و منطق (سائنسى علوم) كى تعليم بهى دى جاتى تهى جبكہ ہندوستان كے نصابِ تعليم كے تيسرے دور ميں (جو 1583ء سے شروع ہوتا ہے؛ دورِ اكبرى) درسِ نظامى ميں ہى علم طب، علم ہيئت اور علم رياضى جيسے سائنسى علوم كا بهى اضافہ كيا گيا۔ انہى علوم ميں سے موجودہ دينى مدارس ميں آج بهى علم ہيئت كى كتاب شرح چغمينى (فلكيات) اور علم ہندسہ (اقليدس) درسِ نظامى ميں شامل نصاب ہے۔ مسلمانوں كے نظامِ تعليم كى اس مختصر تاريخ پيش كرنے سے يہ بتانا مقصود ہے كہ شریعت كے ساتھ ساتھ سماجى، سائنسى اور لسانى علوم كا جامع امتزاجى نصاب ہميشہ سے مسلمانوں ميں رائج رہا ہے جو ان كے علمى افتخار و اعزاز كا باعث بهى بنا، ليكن لارڈ ميكالے كے استعمارى تصورِ علم اور نصابِ تعليم كو 1835ء ميں لاگو كرنے كے بعد اس جامع روايتى نظامِ تعليم كو نہ صرف كلى طور پر نظر انداز كيا گيا بلكہ اسے پامال كرنے كے ليے 1838ء ميں اس كا اہم ترين ذريعہ آمدن٭ مسلم اوقاف بهى برطانوى استعمار نے بحق سركار ضبط كرليے اور ان مدارس سے ادنىٰ ٭ دینی مدارس کے اخراجات اسلامی حکومتیں اور متمول مسلمان خو دادا کیا کرتے جیسا کہ مغل شہنشاہوں کا یہ معمول تھا۔شہنشاہ جہانگیر نے دینی تعلیم کے فروغ اور دینی مدارس کی بہبو د کے لئے یہ قانون وضع کیا ہوا تھا کہ’’حدودِ مملکت میں جہاں بھی کوئی مالدار رئیس یا بیرونی تاجر کسی جانشین یا وارث کے بغیر مرجائے تو اس کی تمام جائیداد واملاک بنام سلطنت منتقل ہوکر مدرسوں پر صرف کی جائے۔‘‘ (منتخب اللباب از خوافی خاں ) ایسے ہی مدرسہ فیرز شاہی دہلی کا تذکرہ کرتے ہوئے مشہور مؤرخ ضیاء برنی لکھتے ہیں کہ ’’یہ مدرسہ اپنے معیار تعلیم اور حسن انتظام میں تمام مدارس ہند سے سب سے بہتر ہے ، مصارف کے لئے شاہی وظائف مقرر ہیں ۔‘‘ مشہور مدرسہ نظامیہ بغدادیہ کے اخراجات کے لئے خواجہ نظام الملک نے ۱۵ ہزار دینار سالانہ کی آمدن والا ایک وقف اس کے نام کیا ہوا تھا۔مشہور زمانہ لارڈ میکالے رپورٹ میں بھی مدارس کے اوقاف کو قبضے میں لینے کا متنازع فیصلہ کیا گیا ہے جو ان کے اخراجات کی تکمیل کے لئے ہی وقف کئے گئے تھے۔ ایسے ہی بنگال میں مسلمانوں کے اوقاف ضبط کئے گئے جن کی آمدنی ۸۰ ہزار روپے سالانہ کے لگ بھگ تھی۔مشہور انگریز مصنف ڈاکٹر ہنٹر اپنی انگریزی تالیف ’’ہمارے ہندوستانی مسلمان‘‘ میں لکھتا ہے: ’’اس حقیقت کو چھپانے سے کیا فائدہ کہ اگر ہم انگریز مسلمانوں کی تعلیم کے لئے دی گئی جائیدادیں ٹھیک ٹھیک صرف کرتے تو بنگال میں ان مسلمانوں کے پاس آج بھی نہایت اعلیٰ اور شاندار تعلیمی ادارے موحود ہوتے۔‘‘