کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 122
ذريعہ ہے كا بنيادى اُصول سادہ ترين الفاظ ميں عوام الناس تك اپنى بات پہنچانا ہے جس ميں قارى كى دلچسپى كا عنصر بطورخاص ملحوظِ نظر ركهنا پڑتا ہے جبكہ فن تحقیق سنجيدہ، علمى اُسلوب اور معروف نظام كے تحت حقائق تك پہنچنے كى كوشش كانام ہے۔ اس لحاظ سے تحقیق كے ساتھ تصنیف وتالیف كو تو زير بحث لايا جاسكتا ہے جيسا كہ مختلف دينى اداروں ميں شعبہ ہائے تحقیق وتصنيف كام بهى كررہے ہيں ، ليكن تحقیق و صحافت كى تركيب موزوں نہيں ہے۔
جديد استعمار نے فكرى كوششوں سے بڑھ كراپنے ابلاغى تسلط كے ذريعے عام پڑھے لكھے لوگوں ميں يہ تاثر قائم كرنے كى بڑى كوشش كى ہے كہ دينى مدارس كو علم و تحقیق سے كيا واسطہ بلكہ دينى حلقوں كو وہ اس انداز سے پيش كرتا ہے كہ يہاں صرف تعصب اور فرقہ واريت كا دور دورہ ہے گويا ايسى فضا ميں علم و تحقیق پروان ہى نہيں چڑھ سكتى۔ مدارس كے بارے ميں يہ عام تصور غيروں كا پيدا كردہ ہے جس كى وضاحت كے لئے ہمارى گزارشات حسب ِذيل ہيں :
مسلمانوں كا روايتى نظامِ تعليم ؛ دينى مدارس
بلاشبہ دينى مدارس مسلمانوں كے اس تاريخى اورروايتى نظام تعليم كا تسلسل ہيں جس سے مسلمانوں كى درخشندہ علمى روايات وابستہ ہيں ۔ مدرسہ نظاميہ بغداديہ (قيام459ھ/1066ء ؛ جسے معروف موٴرخ فلپ ہٹى نے ’عظيم اسلامى يونيورسٹى‘ قرار ديا ہے) سے باضابطہ ’درس گاہ‘ كى شكل ميں يہ نظامِ تعليم جارى ہوا اور اس كو مروّج ہوئے كم وبيش 9 صدياں ہوچلى ہيں ۔
مدرسہ نظاميہ پہلا ايسا مستقل مدرسہ ہے جو خالصتاً تعليم كے فروغ كى غرض سے ادارہ جاتى سطح پر قائم كيا گيا، اس سے قبل قائم ہونى والى درسگاہيں زيادہ ترمساجد كے ساتھ ہوتى تهيں جن ميں درسگاہ مسجد نبوى (اہ)، مسجد ِكوفہ (17ھ)،جامع عمرو بن العاص قاہرہ(20ھ)،جامع منصور بغداد (145ھ) اور جامعہ قرويين مراكش(245ھ) وغيرہ بطورِ خاص نماياں ہيں ۔
مصر، بغداد، دمشق كے علاوہ قرطبہ وغرناطہ ميں يہى نظامِ تعليم مسلمانوں ميں رائج رہا جوبعد ازاں مشرقى پهيلاوٴ سے وسط ِايشيا پهر غور، غزنى اور خراسان كے راستے لاہور، دہلى، آگرہ، لكھنوٴ اور اجمیر ميں بهى پہنچا۔ برصغیر پاك وہند كے قديم نظامِ تعليم كى تحقیق پيش كرتے ہوئے مولانا عبدالحئى رحمۃ اللہ علیہ (والد مولانا ابو الحسن على مياں ندوى رحمۃ اللہ علیہ )نے 1909ء ميں مجلہ ’الندوة ‘ ميں اور اس سے كچھ