کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 95
یا ظالم کے ظلم سے تحفظ مقصود ہو تو اس کی اجازت ہے۔
جیسا کہ واقعہ ہجرت میں دورانِ سفر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا کوئی واقف کار انہیں ملا، وہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں پہنچانتا تھا۔ اس نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: من معک هذا؟ یہ آپ کے ہمراہ کون ہیں ؟ تو انہوں نے ذومعنی جواب دیا: هذا رجل يهدينی السبيل کہ یہ شخص مجھے راستہ کی رہنمائی کرتا ہے۔ مخاطب سمجھا کہ حضرت ابوبکر جدھر جارہے ہیں ، یہ اس راہ کی راہنمائی کرنے والا ہے۔ جب کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی مراد کچھ اور تھی۔ ایسی ذومعنی بات کو ’تعریض یا توریہ‘ کہا جاتا ہے۔ شرعاً اس کی اجازت ہے۔ (مترجم)
یہ بھی ضروری ہے کہ مزاح کرنے والا اللہ کے دین کے بارے میں مزاح نہ کرے۔ بہت زیادہ مزاح سے بھی اجتناب کرنا چاہئے کیونکہ اس سے انسان کی مروّت اور وقار مجروح ہوتا ہے۔
کثرتِ مزاح کے مفاسد
1.مزاح کی کثرت انسان کو اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے۔
2.کثرتِ مزاح کے سبب انسان دین کے اہم امور اور دین کے تفکر سے غافل ہوجاتا ہے۔
3.اس سے دل سخت ہوجاتا ہے۔
4.اس سے بغض و حسد پیدا ہوتا ہے۔
5.اس سے انسان کی سنجیدگی اور وقار کو زوال آجاتا ہے۔
6.کثرتِ مزاح کثرتِ ضحک کا سبب ہے۔ کثرتِ ضحک کے نتیجہ میں دل سخت اور اللہ کی یاد سے غافل ہوجاتا ہے۔
7.زیادہ مزاح کرنے والے کی بات پر اعتماد کرنا مشکل ہوتا ہے۔ سننے والا اس کی سنجیدگی یا مزاح میں تمیز نہیں کرسکتا۔
خلاصہ یہ کہ جب مزاح سچ پر مشتمل اور مذکورہ مفاسد سے پاک ہو تو اس کی اجازت ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم دوزخ اور اس کے عذاب اور جنت اور ا س کی نعمتوں کو ہروقت یاد رکھیں اور ان کی طرف سے غافل نہ ہوں اور ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہر وقت پیش نظر رکھنا چاہئے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
(يا أمة محمد! واﷲ لو تعلمون ما أعلم لبکيتم کثيرا ولضحکتم قليلا ألا هل بلغت)
(متفق علیہ:بخاری:۲/۵۲۹ فتح الباری،کتاب الکسوف، باب الصدقہ۱۰۱۴،و مسلم:۲/۶۱۸)
’’اے امت ِمحمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی قسم! میں جوکچھ جانتا ہوں اگر تم بھی جان لو تو تم زیادہ روؤ گے اور بہت کم ہنسو گے۔ خبردار میں دین کے احکام تم تک پہنچا چکا۔‘‘(جاری ہے)