کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 94
گئی، آپ خاموش ہوگئے۔ اس کے بعد ایک اور موقعہ پر میں آپ کی ہم سفر تھی۔ میرا جسم بھاری اور بوجھل ہوچکاتھا۔ میں پہلی بات بھول چکی تھی۔ آپ نے لوگوں کو آگے جانے کا حکم دیا۔ لوگ آگے نکل گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آؤ دوڑ لگائیں ۔ مقابلہ ہوا تو اس دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے نکل گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہنستے ہوئے فرمایا: یہ اس کا بدلہ ہوگیا۔ (مسنداحمد ۶/۲۶۴/ سنن ابی داود: کتاب الجہاد، سنن ابن ما جہ، کتاب النکاح) ٭ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق سب لوگوں سے عمدہ تھے۔ میرا ایک بھائی ابوعمیر چھوٹا تھا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے تو اس سے شغل فرماتے اور کہتے: ابوعمیر! ممولے نے کیاکیا؟ (صحیح مسلم، کتاب الادب) ٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے۔ ایک سیاہ فام غلام، أنجشہ حدی خوانی کررہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: أنجشہ! ذرا خیال کرو، ہمارے ہمراہ آب گینے (خواتین) ہیں ۔ (بخاری: کتاب الادب ۶۲۱۰/ صحیح مسلم :کتاب الفضائل۵۹۹۰) ٭ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بطورِ مزاح فرمایا: ’’ارے دو کان والے!‘‘ (جامع ترمذی، شمائل ترمذی، سنن ابی داود، شرح السنہ) ٭ صحابہ کرام ایک دوسرے کی طرف ہندوانے (تربوز) پھینکا کرتے تھے۔ معلوم ہوا کہ وہ بھی انسانوں جیسے انسان ہی تھے۔ (الادب المفرد ا ز امام بخاری: ص۱۰۳) (4)تعریض اور اس کا حکم کھلم کھلا بات کرنے کو ’تصریح‘کہتے ہیں ۔ اس کے برعکس بات ہو تو اسے تعریض کہا جاتاہے۔c اُوپر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاح کی جو مثالیں بیان ہوئی ہیں ، شاید ان میں سے بعض کا تعلق تعریض یا توریہ سے ہو۔ بہرحال یاد رکھنا چاہئے کہ ’توریہ اور تعریض‘ یا بعض مخفی اغراض و مقاصد اور مزاح دوسرے کو خوش کرنے کے لئے ہی مباح ہے لیکن اگر مزاح یا تعریض سے دوسروں کو ایذا پہنچتی ہو یا کسی پر ظلم ہوتا ہو یا ا س کے ذریعہ حق کو باطل یا باطل کو حق قرار دیا جارہا ہو تو اس کی نہ صرف اجازت نہیں بلکہ حرام ہے۔ مزاح اور تعریض سے اپنے حق کا حصول