کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 91
’’اس اللہ کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، میرے پاس تمہاری جو حالت ہوتی ہے اگر ہر وقت تمہاری وہی کیفیت رہے اور تم اللہ کے ذکر میں مصروف رہو تو اللہ کے فرشتے تمہارے بستروں پر اور راستوں میں تم سے مصافحے کریں ۔ لیکن حنظلہ یہ وقت وقت کی بات ہوتی ہے۔(یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا)‘‘ ( صحیح مسلم، کتاب التوبہ؛نمبر۶۹۰) بعض اہل علم نے بیان کیا ہے کہ جس طرح انسان کا جسم تھک جاتا ہے، اسی طرح دل بھی تھکاوٹ اور اکتاہٹ محسوس کرتا ہے۔ اس لئے صحیح اور جائز مزاح کے ذریعے دوسروں کے دل کو خوشی پہنچائی جاتی ہے۔ اس سے آپس کے مخلصانہ اور محبانہ تعلقات مزید پختہ اور مضبوط ہوتے ہیں نیز اس سے خوشی اور محبت کی تجدید ہوتی ہے۔ مزاح کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہے۔ اس کی بعض مثالیں بطورِ نمونہ ہم آئندہ ذکر کریں گے۔ اس لئے ائمہ کرام نے بیان کیا ہے کہ مزاح سے مکمل پرہیز اور اجتناب بھی سنت و سیرتِ نبویہ کے خلاف ہے حالانکہ ہمیں سنت اور سیرتِ نبویہ کی اتباع و اقتدا کا حکم دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اس سلسلہ میں ایک حدیث جوبایں الفاظ مروی ہیں : أنه قال: (لا تمار أخاک ولا تمازحه )(ترمذی :۴/۳۵۹) یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’تم اپنے بھائی سے شغل اور مزاح نہ کرو۔‘‘ یہ حدیث سنداً ضعیف ہے۔اس کا ایک راوی لیث بن ابی سلیم ضعیف ہے۔ بالفرض یہ حدیث صحیح ہو بھی تو اس سے ایسا مزاح مراد ہوگا جس میں افراط یا حد سے تجاوز ہو اور آدمی ہمیشہ ایسا کرتا ہو یا فضول مزاح مراد ہوگا۔ ایسی صورتوں میں مزاح کرنا شرعاً ممنوع ہے۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ مزاح میں ہمیشہ سچ ہونا چاہئے۔ اس میں جھوٹ کی آمیزش قطعاً نہ ہو۔ مزاح کے طور پر جھوٹ بولنے والے کے لئے شدید وعید آئی ہے اور مزاح میں جھوٹ ترک کرنے والے کے حق میں ثواب کا وعدہ کیا گیاہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص مزاح میں جھوٹ ترک کردے، میں اس کے لئے جنت کے وسط میں ایک محل کی ضمانت دیتا ہوں ۔‘‘ بہز بن حکیم کے دادا فرماتے ہیں ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ سمعت رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم يقول: (ويل للذي يحدث بالحديث ليضحک به القوم فيکذب ويل له ويل له) (ترمذی:۴/۵۵۷) ’’جو شخص لوگوں کو ہنسانے کی خاطر جھوٹ بولتا ہے، اس کے لئے ہلاکت ہے، تباہی ہے، بربادی ہے۔‘‘