کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 90
تہذیب وثقافت تحریر: ڈاکٹر عاصم عبد اللہ قریوتی
دوسری قسط ترجمہ:پروفیسرسعید مجتبیٰ سعیدی
’اپریل فول‘ … اسلام کی نظر میں
(2) شریعت ِاسلامیہ میں مزاح کا حکم
مزاح سے مراد کسی سے شغل کرنا ہے۔ اس سے اس کا دل دکھانا یا ایذا دینا مقصود نہ ہو بلکہ دل خوش کرنا اور محبت کا اظہار ہو۔ اس مفہوم کی روشنی میں مزاح اور استہزا میں فرق ہے۔
مزاح کی ضرورت :انسان کا ہمیشہ ایک ہی انداز اور ایک ہی طریقہ پر چلتے رہنا بسا اوقات ملال و رنج کا باعث بنتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وعظ ونصیحت کرنے میں ہمارا خیال رکھا کرتے تھے کہ ہم اکتا نہ جائیں ۔ (بخاری، کتاب العلم؛۶۸)
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا:
’’مجھے پتہ چلا ہے کہ تم ساری ساری رات قیام کرتے اور دن کو روزے رکھتے ہو۔ میں نے کہا: جی ہاں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یوں نہ کیا کرو۔ رات کو قیام بھی کیا کرو اور آرام بھی۔ کبھی روزے رکھ لیا کرو اور کبھی چھوڑ دیا کرو۔ تمہارے جسم کا تم پر حق ہے اور تمہاری آنکھ کا بھی تم پرحق ہے۔‘‘(بخاری:کتاب الادب،باب حق الضیف؛۶۱۳۴/صحیح مسلم،کتاب الصیام)
اس حدیث کی تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان پر اس کے جسم، اولاد اور دوستوں وغیرہ کے حقوق ہیں ۔ انسان کو اپنی زندگی کے معمولات میں معتدل ہونا چاہئے ۔ دل کو خوش رکھنا بھی از حد ضروری ہے۔ ہر وقت ایک ہی انداز پر رہنا انسان کے لئے ناممکن اور مشکل ہوتا ہے۔
حضرت حنظلہ اُسیدی رضی اللہ عنہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت ِاقدس میں آئے اور کہا:
’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں جنت اور دوزخ کے متعلق بیان فرماتے ہیں تو ایسے معلوم ہوتا ہے کہ ہم اپنی آنکھوں سے جہنم اور جنت کو دیکھ رہے ہیں ۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سے جانے کے بعد جب ہم اپنی بیویوں ، اولاد اور دیگر مصروفیات میں مشغول ہوتے ہیں تو اکثر باتیں ذہن سے نکل جاتی ہیں اور ہمیں بھول جاتی ہیں ۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: