کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 9
مختلف مکاتب ِفکر میں فرقہ وارانہ نزاع کے حوالے بالکل خاموشی طاری ہے۔ اس سے یہ نتیجہ بآسانی نکالا جاسکتاہے کہ دینی حلقے اس سازش کو نہ صرف بخوبی سمجھ چکے ہیں بلکہ وہ اس کے خلاف ہر طرح کی کوششوں کے لئے تیار بھی ہیں ۔ یہی بات روزنامہ نوائے وقت کے اداریہ نویس لکھتے ہیں : ”کراچی میں اب تک ہونے والے واقعات کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ یہ محض لسانی و نسلی تعصبات اور فرقہ وارانہ منافرت کا نتیجہ نہیں بلکہ ماضی کی رنجشوں سے فائدہ اٹھانے اور کراچی کو نسلی، لسانی اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کی آگ میں جھونکنے کی سازش ہے، جس میں ہمارے دشمنوں کو تاحال کامیابی نہیں ہوئی کیونکہ اتنے بڑے اور سنگین واقعات کے بعد بھی کراچی میں نہ تو مذہبی تعصب کی کوئی لہر اٹھی ہے اور نہ ملک کے دوسرے حصوں میں کوئی اضطراب پیداہوا ہے۔ اس کے برعکس مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام اور تنظیموں نے یکجہتی کا مظاہرہ کرکے ملک دشمنوں کی سازش کو ناکام بنایا۔“ (9 جون 2004ء) (2)جہاں تک ان کارروائیوں پر حکومتی ردعمل اور کارکردگی کاتعلق ہے تو بلوچستان میں دہشت گردانہ واقعات کے تناظر میں مرکزی حکومت نے وفاقی سیکرٹری داخلہ تسنیم نورانی اور انسپکٹر جنرل پولیس شعیب سڈل کو 25مئی کو اپنے موجودہ عہدے سے ٹرانسفر کردیا اور حکومت کی زبانی ان کی تبدیلی کی یہی وجہ پیش کی گئی کہ امن و امان کی بگڑتی صورتِ حال پرقابو پانے کے لئے یہ تبدیلیاں ناگزیر ہیں ۔ (نوائے وقت، 25 مئی) دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ان تبدیلیوں کے باوجود نہ صرف بلوچستان میں 18 جون کو سوئی میں رہائشی آبادیوں پر 56 راکٹ پھٹنے اور ائیرپورٹ کے ڈائنا میٹ سے تباہ ہونے کا واقعہ ہوا بلکہ عین تبدیلی کے پہلے روز یعنی 25 مئی کو ہی دارالحکومت کوئٹہ میں ریموٹ کنٹرول بم دھماکہ بھی ہوا، جس میں قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ہی 14/اہلکار زخمی ہوگئے۔ (نوائے وقت) موجودہ اعدادوشمار کے مطابق بلوچستان میں دہشت گردی کے اب تک آٹھ بڑے واقعات ہوچکے ہیں ۔ (3) جہاں تک کراچی میں امن وامان کا تعلق ہے تو 30،31 مئی کے جڑواں واقعات کے بعد ملک بھر کی سیاسی و مذہبی جماعتوں نے حکومت پر اپنا دباوٴ بڑھا دیا، 2 جون کے اخبارات عوامی، سیاسی اور مذہبی رد عمل سے بھرے پڑے ہیں ۔ اس دباوٴ کے نتیجے میں اسی روز ہی سندھ حکومت میں تبدیلی کی بات شروع ہوگئی اور وزیرداخلہ فیصل صالح حیات نے فوج تعینات