کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 89
قرآن و سنت کی واضح تعلیمات موجود ہیں ۔ (تفصیلات کے لیے دیکھئے امام ابوسف رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب الخراج اور سید مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی الجهاد فى الاسلام/196۔250) اسلام نے جنگ کو ان تمام وحشیانہ افعال سے پاک کر دیا جو اس عہد میں جنگ کا ایک غیر منفک جز تھے اور مثبت اُصولوں کے ذریعہ اسے دنیا کی تمام جنگوں سے منفرد و ممتاز کر دیا۔ جہاد اپنے مقصد اور حصولِ مقصود کے طریق کار کے لحاظ سے پاکیزہ ہے۔ دنیا کا کوئی سیاسی نظام جنگی معاملات میں اتنی باریکیاں اور اپنی فوج پر اتنا نظم و ضبط نہیں برقرار رکھ سکا۔ اس حکمت ِعملی کے مقابلے میں دورِ حاضر کی جنگوں کو دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ جہاد کتنا پاکیزہ طرزِ عمل ہے۔ اجتماعی تباہ کاری، انسانیت کشی اور جلاؤ گھیراؤ کا ظالمانہ طریقہ دورِ حاضرکا مسلمہ اُصول ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے جنگ بھی امن و سلامتی کا ذریعہ اور استحکامِ معاشرت کا وسیلہ ہے۔ اس سے بڑی اور کوئی ستم ظریفی نہیں ہو سکتی کہ جہاد کو دہشت گردی قرار دیا جائے اور اسلام کو ایک انتہا پسندانہ نظریہ قرار دیا جائے۔ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے اور جہاد ایک تعمیری اور مثبت حکمت ِعملی ہے جس کا مقصد فساد اور دہشت گردی کو ختم کرنا ہے۔ دنیا کے دہشت گرد اسلام کو اور اس کے ادارہ جہاد کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں کہ اسلام اپنے روحانی نظام اور ربانی ہدایت کے امین ہونے کی وجہ سے کفر کے غلبے کی راہ میں رکاوٹ ہے اور جہاد اس لیے کہ یہ مسلمانوں کو اپنی جان و مال، عزت و آبرو اور گھر بار اور وطن و مملکت کے دفاع کا حکم دیتا ہے۔ کفر یہ چاہتا ہے کہ مسلم نہتے، بے بس اور بے ہمت ہو کر ہزیمت خوردہ رہیں ۔ انہیں جب چاہیں شکار کر لیا جائے۔ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے، جارحیت اور دہشت گردی کے خلاف ہے،لیکن اپنے ماننے والوں کو عزت و وقار کی زندگی کے لیے دفاع کا حکم دیتا ہے اور اس کے لیے مکمل تیاری پر آمادہ کرتا ہے۔ ارشادِ باری ہے : ﴿ وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَةٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُوْنَ بِه عَدُوَّاللهِ وَعَدُوَّكُمْ وْاٰخَرِيْنَ مِنَ دُوْنِهِمْ لاَ تَعْلَمُوْنَهُمْ اَللهُ يَعْلَمُهُمْ ﴾ ”اور جہاں تک ہو سکے اپنی قوت اور گھوڑوں کو تیار رکھتے ہوئے ان کے لیے مستعد رہو کہ اس سے اللہ کے دشمنوں اور ان کے سوا اور لوگوں پر جن کو تم نہیں جانتے اللہ جانتا ہے ہیبت بیٹھی رہے گی۔“(الانفال:60)