کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 88
”تمہارا اس طرح وادیوں اور گھاٹیوں میں منتشر ہو جانا ہی شیطانی فعل ہے۔“ شائستگی و شرافت:آپ نے فوجوں کے نظم و ضبط کے ساتھ انہیں شائستہ رہنے کی ہدایت کا سلسلہ بھی جاری کیا۔ آپ کا طریق کار تھا کہ جب قائد عسکر کو جنگ پر بھیجتے تو اسے اور اس کی فوج کو پہلے تقویٰ اور خوف کی نصیحت کرتے اور پھر فرماتے: اُغْزُوا بِسمِ اللهِ وَ فِىْ سَبِيْلِ الله قَاتِلُوا مَنْ كَفَر بِاللهِ۔ اغُزُوا وَلاَ تَغْدِرُوا وَلاَ تَغُلُّو ولا تُمَثِّلُوا وَلاَ تَقْتُلُوْا وَلِيداً (ابن ماجہ:كتاب الجہاد، باب وصيةالامام 2/953) ”جاؤ اللہ کا نام لے کر اور اللہ کی راہ میں لڑیں ان لوگوں سے جو اللہ کا انکار کرتے ہیں ۔ مگر جنگ میں کسی سے بدعہدی نہ کریں ، غنیمت میں خیانت نہ کریں ، مثلہ نہ کریں اور کسی بچے کو قتل نہ کریں ۔“ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین نے جب فوجیں شام کی طرف روانہ کیں تو ان کو ہدایات دیں وہ دس ہدایات اسلامی تعلیمات جنگ کا ملخص ہیں ۔ وہ ہدایات مندرجہ ذیل ہیں : (1)عورتیں ، بچے اور بوڑھے قتل نہ کیے جائیں ۔ (2)مثلہ نہ کیا جائے۔ (3)راہبوں اور عابدوں کو نہ ستایا جائے اور نہ ان کے معابد مسمار کیے جائیں ۔ (4)کوئی پھل دار درخت نہ کاٹا جائے اور نہ کھیتیاں جلائی جائیں ۔ (5)آبادیاں ویران نہ کی جائیں ۔ (6)جانوروں کو ہلاک نہ کیا جائے۔ (7)جو لوگ اطاعت کریں ان کی جان و مال کا وہی احترام کیا جائے جو مسلمانوں کی جان و مال کا ہے۔ (8)اموال غنیمت میں خیانت نہ کی جائے۔ (9)جنگ میں پیٹھ نہ پھیری جائے۔ اُمور جنگ کی ان اصلاحات کے ساتھ آپ نے مثبت اصول بھی دیئے، مثلاً ایفاءِ عہد، غیر جانبداروں کے حقوق کا یقین و تحفظ، اختتامِ جنگ پر اسیرانِ جنگ سے حسن سلوک، غنیمت کے مسئلہ کی منصفانہ عملی صورت، صلح و امان کی شرائط، مفتوحین کے ساتھ اچھا برتاؤ، معاہدین وغیر معاہدین کے متعلق تفصیلی احکام، ذمیوں کے حقوق وغیرہ۔ان تمام اُمور کے بارے میں