کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 85
اہل قتال کے حقوق اسلام نے تو ان لوگوں کا بھی خیال رکھا جو اہل قتال ہیں (Combatant) مثلاً آپ نے آگ میں جلانے کی ممانعت کی، باندھ کر مارنے سے منع کیا، لوٹ مار سے روکا، تباہ کاری سے منع کیا، قیدی کو قتل کرنے اور لاش کو بگاڑنے کو ممنوع قرار دیا، سفیر کو قتل کرنے سے منع کیا اور بدعہدی کی ممانعت کی اور وحشیانہ اعمال کے ارتکاب سے روکا۔ دہشت گرد تو اس طرح کے امتیازات اور اسی طرح کی اخلاقی رعایتوں کے قائل نہیں ہوتے۔ مجاہدین اسلام نے ہمیشہ اپنے ہادی کے دیے ہوئے اُصولوں کا لحاظ کیا۔ آگ میں جلانے کی ممانعت:اسلام سے پہلے لوگ شدتِ انتقام میں دشمن کو زندہ جلا دیتے تھے۔ رسول اللہ نے اس وحشیانہ حرکت کو ممنوع قرار دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے! (لا يَنْبَغِى اَنْ يُعَذِّبَ بالنَّارِ الاَّ رَبُ النَّار)(ابوداود: الجہاد، باب فی قتل الاسیر 3/137) ”آگ کا عذاب دینا آگ پیدا کرنے والے کے سوا کسی کے لیے سزا وار نہیں ۔“ ابو ہریرہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ آنحضرت نے ہم لوگوں کو لڑائی پر جانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ اگر فلاں دو آدمی ملیں تو ان کو جلا دینا۔ جب ہم جانے لگے تو بلایا اور فرمایا: (انِّى اَمَرْتُكُم اَنْ تحرقوا فُلاًنا وفُلانًا واِنَّ النَّارَ لاَ يُعَذِّبُ بِهَا اِلاَّ الله فاِنْ وَجَدْتُمُوهُما فاَقْتُلوهُما) (بخاری:کتاب الجہاد،باب فى كراہية حرق العدو بالنار 3/126) ”میں نے تم کو حکم دیا تھا کہ فلاں فلاں شخص کو جلا دینا مگر آگ کا عذاب اللہ کے سوا کوئی نہیں دے سکتا ،اس لیے اگر تم انہیں پاؤ تو بس قتل کر دینا۔“ اب اس کا مقابلہ کریں دور حاضر کے اسلحہ سے جس سے آتش و آہن کی بارش ہوتی ہے کہ ظالمانہ رویہ کس کا ہے؟ اور کس پر دہشت گردی کا عنوان درست بیٹھتا ہے؟ اجتماعی تباہی کی کارروائیاں دور حاضر کی حربی حکمت عملی ہے جس کا اخلاق، دیانت اور شرافت سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ ایک طرح کی درندگی ہے جو کمزوروں اور نہتوں کو شکار کرتی ہے۔ باندھ کر مارنے سے منع فرمایا: رسول اللہ دشمن کو باندھ کر قتل کرنے اور تکلیفیں دے کر مارنے سے منع فرمایا۔ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :(سَمِعُتْ رَسوُلَ الله، يَنْهٰى عَنْ قَتْلِ الصَّبْرِ فوَالَّذِى نَفْسِى بِيَدِه لَوْكَانَتِ الدَّجَاجَةْ مَاصَبَرْتهُا) (ابوداود: کتاب الجہاد،باب فی قتل الاسیر 3/137)