کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 83
طرز عمل اپنانا ہو گا جس کا حکم دیا گیا ہے۔ جہاد کا مقصد جہاد کا مقصد فتنہ و فساد کو ختم کرنا ہے۔ متذکرہ بالا آیت میں اسے واضح کیا گیا ہے۔ قرآن مزید بتاتا ہے کہ اگر مختلف قوموں کو ایک دوسرے کے دفاع کی وجہ سے کنٹرول نہ کیا جاتا تو زمین پر فساد برپا ہو جاتا : ﴿ وَ لَوْلَا دَفْعُ اللهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلٰكِنَّ اللهَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَى الْعٰلَمِيْنَ﴾ (البقرۃ:251) ”اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے دفع نہ کرتا تو زمین فسادسے بھر جاتی لیکن اللہ اہل عالم پر بڑا مہربان ہے۔“ جہاد دہشت گردی کے خلاف دفاع کی حکمت ِعملی ہے۔ یہ دہشت گردی انفرادی طور پر ایک مجرم یا فسادیوں کے گروہ کی طرف سے ہو یا کسی ریاست کی طرف سے، اس کا سدباب صرف جہاد سے ہی ہو سکتا ہے۔ اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ فسادیوں کو سزا دے۔ ہمارے فقہا نے محاربہ پر مفصل بحثیں کی ہیں ، ہم صرف قرآنی حکم پر اکتفا کرتے ہیں : ﴿ اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللهَ وَرَسُوْلَه وَيَسْعَوْنَ فِى الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُّقَتَّلُوْٓا اَوْ يُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُقَطَّعَ اَيْدِيْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ذٰلِكَ لَهُمْ خِزْىٌ فِى الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِى الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ ﴾(المائدۃ:33) ”جو لوگ اللھ اور اس کے رسول سے لڑائی کریں اور ملک میں فساد کرنے کو دوڑتے پھریں ان کی یہی سزا ہے کہ قتل کر دیئے جائیں یا سولی چڑھا دیئے جائیں یا ان کے ایک طرف کے ہاتھ اور ایک طرف کے پاؤں کاٹ دیئے جائیں یا ملک سے نکال دیئے جائیں یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔“ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مقاصد جہاد کے سلسلے میں بہترین توضیحات مروی ہیں ۔ جن میں نبی کریم نے جہادکا واحد مقصد اعلاء کلمۃ اللہ بیان کیا ہے۔ (مسلم: 6/46 عن ابی موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ) ایک اور حدیث میں نبی کریم نے امیر کی اطاعت ، انفاق اور فساد سے پرہیز کرنے والے مجاہد کو کئی گنا اجر کا مستحق قرا ردیا ہے، جبکہ ریاکاری کے مرتکب او رامیر کے نافرمان جہاد کرنے والے کو نقصان کمانے کی وعید سنائی ہے۔ ( ابو داود: 3/30 عن معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ )