کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 82
کبھی منسوخ نہیں ہو گا۔ اسلامی حکومت ہے تو وہ اس کا اہتمام کرے گی، اسلامی حکومت نہیں تو مسلم معاشرے کے اہل تقویٰ و علم اس کا فیصلہ کریں گے۔ اگر وہ بھی نہیں تو جس معاشرے کو ہلاکت و تباہی کا سامنا ہے، وہ انفرادی و اجتماعی طور پر جہاد کی دفاعی حکمت ِعملی وضع کر سکتے ہیں اور ظالموں اور فسادیوں کے سامنے سرنگوں ہونے کی بجائے ان کے مقابلے میں شہادت حاصل کرنا جہاد کی روح کے عین مطابق ہے۔ قرآن نے ایسے حالات میں قتال کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا :
﴿ اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقَاتَلُونَ بَانَّهُمْ ظُلِمُوا وَاِنَّ الله عَلَى نَصْرِهِمْ لَقدِيْرٌ﴾ (الحج:39)
”اجازت دی گئی ہے ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ جاری ہے کیونکہ وہ مظلوم ہے اور اللہ یقینا ان کی مدد پر قادر ہے۔“
یہ قتال فی سبیل اللہ کے بارے میں پہلی آیت ہے جس میں مقابلے کی اجازت دی گئی۔ یہ اجازت ذی الحجہ 1 ھ میں دی گئی۔ اس کے بعد جنگ ِبدر سے کچھ پہلے رجب یا شعبان 2ہ میں مقابلہ کرنے کا حکم دیا گیا۔ ارشادِ ربانی ہے:
﴿ وَقَاتِلُوْا فِىْ سَبِيْلِ اللهِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا اِنَّ اللهَ لَايُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ وَاقْتُلُوْهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوْهُمْ وَاَخْرِجُوْهُمْ مِّنْ حَيْثُ اَخْرَجُوْكُمْ وَالْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ وَلَا تُقٰتِلُوْهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰى يُقٰتِلُوْكُمْ فِيْهِ فَاِنْ قٰتَلُوْكُمْ فَاقْتُلُوْهُمْ كَذٰلِكَ جَزَآءُ الْكٰفِرِيْنَ فَاِنِ انْتَهَوْا فَاِنَّ اللهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ وَقٰتِلُوْهُمْ حَتّٰى لَاتَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّ يَكُوْنَ الدِّيْنُ لِلّٰهِ فَاِنِ انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَى الظّٰلِمِيْنَ اَلشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللهَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ ﴾
”اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں ، مگر زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ ان سے لڑو جہاں بھی تمہارا ان سے مقابلہ پیش آئے اور انہیں نکالو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے، اس لیے کہ قتل اگرچہ برا ہے، مگر فتنہ اس سے بھی زیادہ برا ہے۔ اور مسجد ِحرام کے قریب جب تک وہ تم سے نہ لڑیں تم بھی نہ لڑو، مگر جب وہ وہاں لڑنے سے نہ چوکیں ، تو تم بھی بے تکلف انہیں مارو کہ ایسے کافروں کی یہی سزا ہے۔ پھر وہ اگر باز آ جائیں ، تو جان لو کہ اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔“(البقرۃ:190تا194)
ان آیات میں اسلام کے اوّلین دشمنوں یعنی مشرکین مکہ کے طرزِ عمل پر بحث کی گئی ہے۔ جب بھی اور جہاں بھی مسلمانوں کے دشمنوں کے ایسے رویے ہوں گے، ان کے خلاف وہی