کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 81
میں دہشت گردی کا ارتکاب کر رہے ہیں اور انہیں عالمی برادری کی حمایت حاصل ہے۔ بین الاقوامی دہشت گردی کا شکار عراق اور افغانستان ہوئے ہیں اور مزید ممالک کا نام فہرست میں شامل ہے۔یہ عظیم طاقت عالمی دہشت گردی کی اصطلاح مسلمانوں پر چسپاں کر کے ان کے خلاف جارحانہ اقدام جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسرائیل اور ہندوستان نے اس کی پیدا کردہ اس عالمی فضا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فلسطین اور کشمیر میں دہشت گردی و قتل و غارت اور ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ یہی کچھ روس چیچنیا میں کر رہا ہے۔ عالمی ضمیر نام کی اگر کوئی شے ہو سکتی ہے تو وھ بھی ان مظالم پر خاموش ہے۔ دنیا اس وقت واضح طور پر کفر و اسلام میں منقسم ہے اور مسلمان ظلم و دہشت گردی کی زد میں ہیں …!! لائحہ عمل جہا د اسلام اگرامن و سلامتی کا دین ہے تو کیا پرامن رہنے کا مطلب ظلم برداشت کرنا اور دہشت گردی کے مقابلے میں جاں سپرد کرنا ہے؟ ہرگز نہیں ! اسلام امن و سلامتی کا دین ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو ظلم نہیں کرنا چاہیے، ناحق خون نہیں بہانا چاہیے، بے گناہ انسانوں کی جان و مال کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے، کوئی ایسا اقدام نہیں کرنا چاہیے جو ناجائز تشدد کے زمرے میں آتا ہے۔ جہاں تک ظالم کے ہاتھ کو روکنا اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کا تعلق ہے تو امن و سلامتی کا یہ دین اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ظالم کا ہاتھ روک دیا جائے اور دہشت گردی کا مقابلہ کیا جائے؛ اسی کا نام ’جہاد‘ ہے۔ ’جہاد‘ فتنہ و فساد کو روکنے اور ظلم کو مٹانے کا نام ہے۔ دہشت گردی فساد انگیزی اور ظالمانہ کارروائی ہے۔ جب کہ جہاد حق کے دفاع اور انصاف کے قیام کا نام ہے، دہشت گردی بلا امتیاز قتل و غارت اور بے دریغ تباہی و بربادی ہے اور جہاد جارحیت کا مقابلہ اور برسرپیکار فسادیوں کی مزاحمت ہے۔ امن و سلامتی کا دین عطا کرنے والے ربّ نے مسلمانوں کو اس امر کی اجازت دی ہے کہ ظالموں ، قاتلوں اور فسادیوں کے سامنے کھڑے ہو جائیں ان کا ربّ ان کی مدد کرے گا اور انہیں ظالموں پر فتح عطا کرے گا۔ دہشت گردی ایک منفی طرزِ عمل ہے جب کہ جہاد ایک مثبت اُصولِ حیات ہے۔ جہاد اُمت ِمسلمہ کے اجتماعی تشخص کی حفاظت کے لیے فرض کیا گیا ہے اور یہ ہمیشہ فرض رہے گا،