کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 80
دہشت گردی کے خلاف مسلح تحریکیں چل رہی ہیں اور بعض ریاستیں اپنی دہشت گردی کی وجہ سے نمایاں مجرم ہیں ۔ ان میں امریکہ، اسرائیل، ہندوستان اور روس نمایاں ہیں ۔ بدقسمتی سے ان تمام صورتوں میں مسلمان ہی اس دہشت گردی کا شکار ہیں ۔ عراق و افغانستان، فلسطین، کشمیر اور چیچنیا کے مسلمان نمایاں طور پر اور فلپائن کے مسلمان عمومی طور پر ریاستی دہشت گردی کا شکار ہیں اور افسوسناک بات یہ ہے کہ ان دہشت گرد ریاستوں نے عالمی میڈیا کے زور پر ان مسلمان مزاحمت کنندہ تحریکوں اور لوگوں کو دہشت گرد قرار دے کر قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ ریاستی دہشت گردی کی بدترین صورتیں کشمیر، فلسطین اور چیچنیا میں ظاہر ہو رہی ہیں لیکن عالمی برادری ان پر خاموش ہے۔ عالم کفر مسلمانوں کے بارے میں متحدہ موقف رکھتا ہے۔ جن کے گھر مسمار ہو رہے ہیں ، نوجوان قتل ہو رہے ہیں ، کھیتیاں جل رہی ہیں ، عورتوں کی بے حرمتی ہو رہی ہے اور بچے مر رہے ہیں ، وہ دہشت گرد قرار دیئے جا چکے ہیں اور جو قتل وغارت میں مصروف ہیں وہ امن کے پیغامبر ہیں ۔ تفو پر تو اے چرخ گردوں تفو بین الاقوامی دہشت گردی ریاستی دہشت گردی کی ایک اور بدترین صورت عالمی دہشت گردی ہے جب ایک ملک دوسرے ملک پر حملہ آور ہوتا ہے۔ ہوسِ ملک و زر کے لیے جنگیں لڑنے والے فاتحین نے غارت گری سے دوسرے ملکوں پر قبضہ کیا اور ان کے وسائل کو لوٹا۔ مغرب کی دہشت گردی اپنی روایت رکھتی ہے۔ رومیوں نے جب عیسائیت قبول کی تو غیر عیسائی اقوام کے خلاف ان کا رویہ دہشت گردانہ تھا۔ اس کی کوکہ سے جنم لینے والی یورپی مملکتیں دہشت گردی اور تشدد پسندی کی راہ پر چلتی رہیں ۔ مذہب کے نام پر یہ تشدد قرونِ وسطی میں جاری رہا۔ اس کے بعد یہ دہشت گردی عالم اسلام پر مسلط ہوئی۔ صلیبی جنگیں (1095ء تا 1204ء) مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی اور بربریت کا بدترین نمونہ تھیں ۔ اس دوران میں مسلمانوں کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کیا گیا۔ دورِ حاضر میں مغرب میں مسلمانوں کے خلاف جو لٹریچر تیار ہوا ہے اور اب جو سیاسی بیانات، ریڈیو اور ٹیلیویژن کے پروگرام اور تبصرے آ رہے ہیں ، ان کی بنیاد یھی زہریلا لٹریچر اور یہی روایت ہے جو قرونِ وسطی میں مرتب ہوئی۔ بین الاقوامی دہشت گردی کی قیادت عظیم ترین طاقت کے ہاتھ میں ہے۔ اسرائیل، ہندوستان اور روس اپنے اپنے دائرے