کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 8
تبصرہ وتجزیہ: دہشت گردی کے ان سنگین واقعات کا تسلسل ماہ جون میں بھی جاری رہا۔ اس سے اگلا واقعہ 10 جون 2004ء کو پیش آیا۔ آگے بڑھنے سے قبل ان واقعات کے بارے میں بعض حوالوں سے تبصرہ پیش خدمت ہے : (1) مولانااعظم طارق کی شہادت سے لے کر مئی کے آخری واقعات تک تین مختلف مذہبی اجتماعات کو بم دھماکوں میں نشانہ بنایا گیا،جس میں دومتاثرہ مساجد شیعہ مکتب ِفکر سے تعلق رکھتی ہیں ۔ جبکہ دو نامور شخصیات اس دہشت گردی کی نذر ہوئیں : مولانااعظم طارق اور مفتی نظام الدین شامزئی۔ ان میں پہلی شخصیت سیاسی، تحریکی اور عوامی اعتبار سے ممتاز حیثیت رکھتی ہے تو مفتی صاحب کی شخصیت روحانی، علمی اور بزرگی صفات میں اپنی مثال آپ ہے۔ ان دونوں شخصیات کا تعلق دیوبند مکتب ِفکر سے ہے۔ شہید ہونے والوں میں سے اوّل الذکراگر سپاہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا پس منظر رکھتے ہیں تو ثانی الذکر طالبان کے روحانی سرپرست ہیں ۔ یہاں یہ امر قابل توجہ ہے کہ ان پانچوں واقعات میں کسی مکتب ِفکر نے مقابل گروہ پر دہشت گردی اور جارحیت کا الزام عائد نہیں کیااور نہ ہی کسی نے اس کا اعتراف کیاہے۔ بلکہ ہردو طرف کے رہنما اس دہشت گردی پر اپنے زیراثر حلقہ کو صبر و حوصلہ کی تلقین کرتے رہے جیسا کہ اخباری بیانات اس کے گواہ ہیں ۔ ممتاز شخصیات نے اس دہشت گردی کو فرقہ وارانہ تناظر کی بجائے ملکی و ملی پس منظر میں دہشت گردانہ کارروائیوں پر موقوف کیاہے۔ ان واقعات کی تسلسل سے جانچ کرنے والوں سے بھی یہ امر مخفی نہیں کہ نہ اس سے قبل کبھی شیعہ سنی مخاصمت ومنافرت اس درجہ تک موجود تھی کہ فریقین کی نوبت قتل و غارت تک پہنچ جائے، نہ ہی ان واقعات کو دینی حلقوں نے اس تناظر میں لیاہے وگرنہ ضروری تھا کہ 30 اور 31 مئی کے دو سنگین واقعات گزرنے کے بعد ملک میں فرقہ وارانہ مذہبی فسادات بھڑک اٹھتے، لیکن واقعات اور شواہد اس کی تائید و حمایت سے عاری ہیں ۔ گذشتہ ماہ بھر کاجودورانیہ اس کے بعد بھی گزرا ہے، اس میں کسی قسم کے مذہبی تشدد کی کوئی مثال سامنے نہیں آئی۔ سانحہ کوئٹہ سے سانحہ مسجد حیدری میں حائل تین ماہ کا دورانیہ بھی ایسی فرقہ وارانہ چشمک سے یکسر خالی ہے جبکہ اس سے قبل مولانااعظم طارق کی شہادت سے سانحہ کوئٹہ تک اور ان کی شہادت سے بھی پہلے بہت دور تک