کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 78
اس لیے بے اثر ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں گروہوں کی قیادت کو بقاے باہمی اور رواداری کے اُصولوں پر پختہ معاہدے کا پابند کیا جائے اور بیرونی مداخلت کے دروازے بند کیے جائیں ۔ ہر قسم کے جلسے جلوسوں کو اپنی اپنی آبادیوں میں محدود کر دیا جائے اور کھلے بندوں ہر جگہ جلسے جلوس کی کارروائیوں پر مستحکم پابندی لگائی جائے تا کہ اپنے علاقے اور اپنی مسجد میں اظہارِ خیال پر پابندی بھی نہ لگے اور کھلے بندوں جلوسوں جلسوں کے انعقاد کی وجہ سے نقض امن کی صورت حال بھی نہ پیدا ہو۔ تبلیغ مسلک کو مسجدوں اور امام باڑوں تک محدود کر دیا جائے اور اسلام کی وہ تعلیمات جو مشترک عقائد و اقدار پر مبنی ہیں ان کی تبلیغ کی کھلی اجازت دی جائے۔ یہی اُصول بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث گروہوں کے سلسلے میں بھی اپنایا جائے۔
گروہی دہشت گردی میں سیاسی دہشت گردی بھی شامل ہے جس میں ایک سیاسی فکر رکھنے والی جماعت بہ جبر لوگوں کو اپنی سیاسی رائے کا پابند کرے۔ سیاسی زندگی تو ایک روادارانہ زندگی ہے جس میں اپنے موقف کا اظہار اور اس کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرنا بنیادی استحقاق ہے۔ بعض گروہ تشدد کے ذریعہ خوف کی فضا پیدا کر کے لوگوں کو اپنا ہم نوا بننے پر مجبور کرتے ہیں ۔ یہ سیاسی دہشت گردی اس بنیادی تصور ہی کے خلاف ہے جس پر کسی ملک کی سیاسی زندگی منظم ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ سیاسی نظام مستحکم نہیں ہوا، اس لیے سیاسی جماعتیں بعض اوقات اپنے مقاصد کے لیے پرتشدد کارروائیاں کرتی ہیں جو نقض امن کا سبب بنتی ہیں ۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ خوفناک ’لسانی دہشت گردی‘ ہے۔ بعض گروہوں نے لسانیت کو ایک سیاسی مذہب کے طور پر اختیار کیا اور اس کی بنیاد پر اپنے سے مختلف لسانی گروہوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا ہے۔ پاکستان ایک ملک ہونے کے باوجود ایک علاقے کا آدمی دوسرے علاقے میں کاروبار کرنے یا آباد ہونے میں مشکلات محسوس کرتا ہے۔ سیاسی رواداری اور معاشرتی حسن عمل کا تقاضا ہے کہ اس ملک کا ہر شہری بلا لحاظ مذہب زبان اور نسل ہر جگہ آزادی کے ساتھ اپنی مثبت سرگرمیاں جاری رکھ سکے۔
سندھ میں کئی برسوں سے آباد غیر سندھیوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا اور کراچی میں دہشت و تشدد کی کاررائیاں شدید خوفناکی کے باعث اپنی نظیر نہیں رکھتیں ۔ یہ لاقانونیت اصحابِ اختیار کی نفاذِ قانون کی پالیسی سے ہی ختم ہو سکتی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی