کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 77
منظم اقلیت سے ہمیشہ خائف رہی ہے۔ شیعہ حضرات کی جارحانہ تبلیغی سرگرمیاں ہمیشہ موضوعِ بحث رہی ہیں ۔ جلسے، جلوس اور تقریبات وغیرہ دراصل تبلیغ کے ذرائع اور اپنے اثر و رسوخ کی حدود کو وسیع کرنے کی حکمت ِعملی ہے۔ ان تقریبات کو تبدیلی مسلک اور قوت کے اظہار کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، اس لیے سنی اکثریت کے علاقوں میں ان جلوسوں کے گذرنے پر اختلافات اور جھگڑے رونما ہوتے رہے ہیں ۔ شیعہ حضرات اس کو اپنا مذہبی حق قرار دے کر اس پر اصرار کرتے رہتے ہیں اور سنی اسے اپنے علاقوں میں بہ جبر گذارنے اور منعقد کرنے کو اپنی حق تلفی قرار دیتے رہے ہیں ۔ کسی مناسب افہام و تفہیم نہ ہونے کی وجہ سے تصادم کی صورت پیدا ہوتی رہی جس میں سنیوں کے بعض گروہوں کو سرکاری اداروں کی یک طرفہ شیعہ حمایت کی وجہ سے مایوسی اور بے چارگی کا احساس پیدا ہوا۔اس احساسِ محرومی کو بعض علما نے اپنی تقریروں کا موضوع بنایا اور شیعہ عقائد اور سرگرمیوں پر کڑی تنقید شروع کی۔ ان جلسوں میں آہستہ آہستہ زبان سخت ہوتی گئی، اسی طرح شیعہ ذاکرین و خطبا نے اپنی تقریروں میں مسالہ اور تیز کر دیا جو بالآخر باہمی قتل و خون ریزی پر منتج ہوا۔ تشدد پسند تنظیمیں وجود میں آئیں اور ایک دوسرے کو قتل کرنے کے واقعات رونما ہونے لگے۔ مسجدوں میں نمازی قتل ہوئے۔ امام باڑوں پر حملے ہوئے۔ موٴثر علما مقررین کو نشانہ بنا کر قتل کیا گیا۔ ایک مرحلہ پر تو ایسا نظر آنے لگا تھا کہ خدانخواستہ یہ مملکت ِخداداد شیعہ سنی غارت گری کا میدان بن جائے گی لیکن الحمد گذشتہ چند سالوں سے اس صورتحال میں قدرے بہتری آئی ہے اور فرقہ وارانہ دہشت گردی میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔ شیعہ سنی ہماری تاریخ اور ہمارے عقیدہ کی دو تعبیریں ہیں اور صدیوں سے موجود ہیں دونوں طرف سے اپنے حق میں دلائل دیئے جا رہے ہیں اور دیئے جاتے رہیں گے۔ کوئی ایک دوسرے کو ختم نہیں کر سکا اور دونوں اسلامی معاشروں میں مل جل زندگی بسر کرتے آئے ہیں ۔ اس لیے عقل مندی کی بات یہ ہے کہ اس اختلاف کو قبول کر لیا جائے اور طاقت کے استعمال کے بجائے دلیل کی بات کی جائے۔ پاکستان میں بدقسمتی سے اقلیتی گروہ اپنی سیاسی، معاشی اور سماجی حیثیت سے اپنی عددی قوت کے اعتبار سے کہیں زیادہ موٴثر اور طاقتور ہے، اس لیے وہ اپنے اثرات کو مجتمع کرنے اور مرتکز کرنے کی زیادہ صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کا اندازِ بیان موٴثر اور طریق کار خفیہ طور پر منظم ہے، اس لیے ثمر آور ہے۔ سنی گروہوں کا ردّعمل کھلا اور شدید ہے،