کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 75
سخت اوروحشیانہ تشدد دہشت گردی کی ذیل میں آتے ہیں ۔ اس عمل میں قتل،اغوا،ہائی جیکنگ اور سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے بم باری بھی شامل ہے۔ سیاست دانوں اور ذرائع ابلاغ کے زیر استعمال آنے کے بعد یہ لفظ اپنی اصل ہیت میں ہر قسم کے سیاسی تشدد کے لیے استعمال ہونے لگا ہے خاص کر انقلابی اور گوریلا جنگی حکمت عملی کے ضمن میں مکمل جنگ کے علاوہ دیگر تمام پر تشدد سیاسی اقدامات دہشت گردی کے مترادف ہیں ۔“
بہت سے لوگ اس کی تعریف میں انفرادی یا غیر سرکاری تنظیموں کی کارروائی کو ہی دہشت گردی قرار دیتے ہیں لیکن ان کی یہ بات یک طرفہ ہوتی ہے کیونکہ ایسا یا تو حکومتیں کرتی ہیں یا حکومتوں کے تنخواہ دار لوگ کرتے ہیں ۔ بے شمار ایسے لکھنے والے ہوتے ہیں جو کسی نہ کسی حکومت یا قوت کا نقطہ نظر پیش کر رہے ہوتے ہیں یا اس کے حق میں دلائل دے رہے ہوتے ہیں ۔ امریکی دانشور نوم چومسکی کی بات غالباً غیرجانبدارانہ ہے، وہ کہتا ہے:
”دہشت گردی، تشدد یا تشدد کی دھمکی کا نپا تلا استعمال ہے جو دباؤ ڈال کر اور جبر و خوف پیدا کر کے سیاسی، مذہبی یا نظریاتی نوعیت کے اہداف حاصل کرنے کے لیے کیا جائے۔“ ( ارشاد احمد حقانی، کیا نوم چومسکی انسان سے مایوس ہو رہے ہیں ؟ روزنامہ جنگ لاہور 8 نومبر 2001ء)
ان تمام تعریفوں میں ہر ایک نے اپنے اپنے نقطہ نظر کو بیان کیا ہے، تاہم ہر ایک میں جارحیت اور تشدد کا مفہوم پایا جاتا ہے جو سب سرگرمیوں میں قدرِ مشترک ہے۔ ہر ایسی جارحانہ اور پرتشدد کارروائی جس سے سیاسی و معاشی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی جائے دہشت گردی کہلائے گی۔
دہشت گردی کے مقاصد
اگرچہ دہشت گردی کی مستند تعریف نہیں کی جا سکی، تاہم جو معنی بیان کیے گئے ہیں اس سے جو نتیجہ نکلتا ہے، وہ یہ ہے کہ دہشت گردی ایک ایسا عمل ہے جس میں منصوبہ بندی کے ساتھ تشدد اور تباہی کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ دہشت گردی کا ایک واقعہ بھی ہو سکتا ہے اور کئی واقعات کا تسلسل بھی۔ خوف و ہراس کی ایسی فضا پیدا کرنا جس سے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاسکیں ، دہشت گردی کا ماحول کہلائے گا۔ اس کا بنیادی ہدف کچھ لوگ ہوتے ہیں لیکن اس کا شکار معصوم بھی ہو جاتے ہیں گو ان کو مارنا مقصود نہیں ہوتا۔ اصل مقصود ایک ایسی فضا تیار کرنا ہوتی ہے جس سے لوگوں میں اضطراب پیدا ہو اور مطلوبہ مقاصد حاصل ہو سکیں ۔ مقاصد میں سیاسی، معاشی اور مذہبی پہلو شامل ہیں ۔ بعض اوقات صرف ذاتی مقاصد کے لیے دہشت