کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 73
اُتر آیا ہے۔ چونکہ اس کے پاس اسلحہ اور میڈیا کی طاقت ہے، اس لیے مسلمانوں کو تو مسلمہ دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے اور ان کا خون مباح سمجھا جا رہا ہے لیکن مغرب و مشرق کی طاقتور قومیں جو تخریب کاری کر رہی ہیں ، اسے دہشت گردی کا نام نہیں دیا جاتا۔ دہشت گردی کے واقعات کو ایک طرف رکھتے ہوئے پہلے یہ جائزہ لیتے ہیں کہ دہشت گردی کیا ہے؟ اسے کیسے بیان کیا جاسکتا ہے؟ دہشت گردی کا لفظ انگریزی لفظ Terrorism کا ترجمہ ہے۔ انگریزی لغت کی کتابوں میں Terror کے بارے میں جو وضاحت ملتی ہے وہ کچھ اس طرح ہے :
Intense fear, a person or thing causing intense fear, the quality of causing suchfear, terribleness (Webster's New World college Dictonary (Third Edition) p.1382 )
” شدید خوف، سخت خوف کا موجب کوئی شخص یا کوئی شے، یا اس درجے کا خوف پیدا کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہونا۔ پر مصائب۔“
اس ڈکشنری میں Terrorismکو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے :
The act of terrorising, use of force to demoralize, intimidate, and subdugate especially such use as a political weapon or policy, the demoralization and intimidation produced in this way (Ibid)
” خوف زدہ کرنے کا عمل کسی کو ہراساں کرنے کیلئے طاقت کا استعمال، سیاسی ہتھیار یا سیاسی پالیسی کے طور پر خوف زدگی کی ترغیب یا نفاذ ، ڈر کے ت حت ہراساں کر کے ترغیب دینا۔“
دہشت گردی کی اصطلاح ہمارے عہد میں اتنی کثرت سے استعمال ہوئی ہے اور اتنے متنوع مفاہیم میں استعمال ہو رہی ہے کہ اس کی کوئی مستند تعریف نہیں کی جا سکتی، تاہم جن مفاہیم میں کثرت سے استعمال کی جا رہی ہے، ان میں سے چند ایک کی طرف ہم اشارہ کریں گے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے طاقت کا استعمال دہشت گردی ہے، اسی طرح ریاست کا محض شبہ کی بنا پر کسی غیر جانبدارانہ عدالتی طریقہ کے بغیر اور جرم ثابت کیے بغیر سزا دینا بھی دہشت گردی قرار پائے گی۔ مغرب چونکہ دہشت گردی میں ملوث رہا ہے اور اس وقت اسے بعض مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کر رہا ہے، اس لیے ان کے ہاں اس کی وضاحت پائی جاتی ہے۔ مثلاً آکسفورڈ انسائیکلو پیڈیا میں اسے ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: