کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 71
ہیں کہ انسانی طبیعت اس طرح کا بوجہ نہیں برداشت کر سکتی۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ان مشقتوں اور مشکلوں سے نجات دلانے کے لیے آئی۔ اہل کتاب ہی کے حوالے سے قرآن نے آپ کے احسانات کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا :
﴿ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِىْ كَانَتْ عَلَيْهِمْ﴾(الاعراف: 157)
”ان کیلئے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے اور ان پر سے وہ بوجہ اُتارتا ہے جو ان پر لادے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔“
اہل کتاب کے ہاں چونکہ مذہبیت مشکل پسندی تھی، اس لیے ان کے سیکولر اور روشن خیال طبقے نے مذہب کا قلادہ ہی اُتار دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہی اہل کتاب اب اس اعتدال پسند اُمت کو انتہا پسند کہتے ہیں ۔ حالانکہ مسلمان کبھی انتہا پسند نہیں ہو سکتا۔ ہمارے انتہا پسندانہ رجحانات اگر کہیں پائے گئے تو وہ منحرف گروہوں میں پائے گئے جنہیں امت کے اجتماعی ضمیر نے ہمیشہ ردّ کیا ہے۔ اسلام ایک کھلا، اُصولی اور عقلی دین ہے جس میں موافقت و مخالفت، محبت و نفرت اور یگانگت و علیحدگی کے ضوابط موجود ہیں ۔ یہ کوئی زیر زمین تحریک نہیں ہے کہ سازشیں کرے یا خفیہ منصوبہ بندی کرے۔ اس کا نصب العین واضح اور مقاصد متعین ہیں ۔ اہل کتاب نے ہمیشہ خفیہ منصوبہ بندیاں کی ہیں ، سازشیں کی ہیں ، بدعہدیاں کی ہیں اور انتہا پسندانہ کارروائیاں کی ہیں۔ مسلمان اپنے مزاج کے اعتبار سے ہی اس قابل نہیں کہ وہ اس طرح کی سرگرمیاں کر سکے۔ اسلام اور کفر کا بنیادی فرق اعتدال اور انتہا پسندی کا ہے۔ انقلابِ زمانہ ہے کہ بولہبی ظلمت چراغِ مصطفوی پر خندہ زن ہے۔ اسلام نے اختلاف کے لیے بھی اُصول دیئے اور رویے طے کیے۔ فرمایا:
﴿ وَلاَ تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ فَيَسُبُّوْا اللهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ﴾(الانعام: 158)
”یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انہیں گالیاں نہ دو کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں ۔“
حالت ِجنگ کے سلسلے میں بھی اُصول دیئے اور اسمیں بھی حد سے بڑھنے کی اجازت نہ دی
﴿وَقَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللهِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا اِنَّ اللهَ لَايُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ﴾
”تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں مگر زیادی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔“(البقرۃ: 190)