کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 70
کرتا ہے … اسلام ’اعتدال‘ کا نام ہے! اسلام سے پہلے زندگی کے بارے میں مختلف گروہوں کا رویہ افراط و تفریط پر مبنی تھا۔ ایک گروہ نے مادّی زندگی ہی کو سب کچھ سمجھ رکھا تھا، لہٰذا اس کی تمام سرگرمیاں اسی کے گرد گھومتی تھیں ۔ ایک دوسرے گروہ نے مادّی زندگی کو آلائش سمجھ کر رد کر دیا تھا۔ ان کے نزدیک سچی مذہبیت ترکِ دنیا سے ہی حاصل ہوتی تھی۔ اسلام نے ان دونوں رویوں کے درمیان اعتدال کی راہ اپنائی۔ یہ ’اعتدال‘ دنیا کی روحانی تعبیر ہے۔ یعنی ایک انسان کاروبارِ دنیا کو اللہ کے احکام و قوانین کے مطابق چلائے تو دنیا کی لذتیں حاصل کرتا ہے۔ اور مذہبی تجربے کی لطافتوں سے بھی بھرہ مند ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اُمت ِمسلمہ کو اُمت ِوسط قرار دیا ہے جس کے کئی مفاہیم میں سے ایک یہ بھی ہے۔ قرآن نے کہا : ﴿ وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا ﴾ (البقرۃ: 143) ”اور اسی طرح ہم نے تمہیں ایک معتدل اُمت بنایا ہے تا کہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول تم پر گواہی دیں گے ۔“ قرآن نے انتہا پسندی کے لیے جو اصطلاح استعمال کی ہے وہ ’غلو‘ ہے جس کے معنی ہیں بڑھنا، زیادہ ہونا اور متجاوز ہونا۔ یہ لفظ اگر دین کے تعلق سے آئے تو اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ دین میں جس چیز کا جو درجہ و مرتبہ یا وزن ومقام ہے، اس کو بڑھا کر کچھ سے کچھ کر دیا جائے۔(تدبر قرآن: 2/206) کسی کام کو قواعد و ضوابط کے مطابق انجام دینا ’اعتدال‘ کہلاتا ہے اور ان قواعد و ضوابط میں کمی بیشی کرنا افراط و تفریط قرار دیا جاتا ہے۔ اہل کتاب اپنے عقائد اور رویوں میں اعتدال کی راہ سے ہٹے ہوئے تھے، اس لیے قرآن نے ان کے رویے کو انتہا پسندی سے تعبیر کیا۔ قرآن نے اہل کتاب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ﴿ياهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِىْ دِيْنِكُمْ وَ لَا تَقُوْلُوْا عَلَى اللهِ اِلَّا الْحَقَّ﴾( النساء: 171) ”اہل کتاب! اپنے دین میں غلو نہ کرو اور اللہ کی طرف حق کے سوا کوئی بات منسوب نہ کرو۔“ دین میں مشکل پسندی بھی ایک طرح کی انتہا پسندی ہے۔ مذہبی لوگوں کے ہاں یہ مشکل پسندی ہمیشہ مرغوب رہی ہے۔ مختلف مذہبی گروہوں نے ایسی مشقیں اور ایسی مشقتیں اختیار کی