کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 7
پولیس عوامی رد عمل سے اس قدر خائف تھی کہ فاصلہ سے فون پر رابطہ کے ذریعہ صورت حال سے باخبر رہی جبکہ پولیس اہلکاروں نے آنسو گیس کی بے دریغ شیلنگ اور ہوائی فائرنگ کا سہارا لیا۔ آنسو گیس سے جنازے کے متعدد شرکا متاثر ہوئے جن میں اکرم درانی بھی شامل تھے۔ (نوائے وقت:31 مئی 2004ء) (5)مولانا شامزئی کی شہادت سے اہلیانِ کراچی ابھی سنبھلنے نہ پائے تھے کہ ایک بار پھر شیعہ مسجدعلی رضا واقع محمد علی جناح روڈ میں 31 مئی کو نمازِ مغرب میں ہولناک بم دھماکہ ہوا۔ اس حادثہ میں 18 نمازی شہید اور 50 کے لگ بھگ زخمی ہوئے۔ دہشت گردوں کی سنگدلی کا یہ عالم تھاکہ رات گئے خون دینے والوں پرایک اور حملہ کیا گیاجس کے نتیجے میں مزید ایک شخص ہلاک اور 7 زخمی ہوگئے۔متاثرین نے ردعمل میں درجنوں گاڑیاں ، دکانیں ، چاربینک نذر آتش کردیے، دو پولیس اہلکارسمیت16/ افراد احتجاج میں زخمی ہوئے۔ پبلک ٹرانسپورٹ اور بازار بند، نظامِ زندگی مفلوج ہوگیا۔ مشتعل افراد نے سب انسپکٹر سمیت کئی پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا۔ (نوائے وقت، 2 جون 2004ء) 26 مئی سے 31 مئی کے پانچ روز میں دہشت گردی کے لگاتار تین واقعات نے ملک بھر میں رنج و غم کی لہر دوڑا دی، کراچی کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی اور کراچی ایک بارپھر ماضی کی دہشت گردی کے دور میں واپس لوٹ گیا۔ 30 اور 31 مئی کے دو واقعات نے ملک بھر کی توجہ کراچی کی طرف مبذول کی اور اخبارات میں اس حوالے سے مضامین اور خبروں کا تانتا بندہ گیا۔ مفتی شامزئی کی شہادت کو ہر ایک نے بڑی سنجیدگی سے لیا۔ اسی طرح مساجد میں نمازیوں پر تین دھماکوں میں ہونے والی شہادتوں اور زخمی افراد کی تکلیف اور غم و رنج کو سب نے محسوس کیا اور ان کے دکہ درد کو خلوصِ دل سے سمجھا۔ روزنامہ نوائے وقت نے مئی کے واقعات کو رپورٹ کرتے ہوئے لکھا : ”مئی کے چھ واقعات میں 62/افراد دہشت گردی کا شکار ہوئے۔ ماہ مئی کراچی کے لئے خونی ثابت ہوا جس میں بم دھماکوں اور دہشت گردی کے بڑے واقعات میں 62/افراد جان بحق اور 175 سے زائد زخمی ہوئے۔ پولیس کسی بڑے واقعے کے ملزمان کا سراغ لگانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ “ آگے ہر واقعہ کامستقل تذکرہ کیا گیاہے (نوائے وقت ، 2 جون 2004ء)