کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 69
صاحب ِتقوی افراد کو نشانہ بنا کر قتل کیا جا رہا ہے۔ اہل کتاب کے اربابِ سیاست نے چونکہ اپنے مذہب کو چھوڑ کر بے دینی اختیار کی ہے لہٰذا انہیں مذہب پر عمل کرنے والا مسلمان قابل قبول نہیں ۔ جس طرح انہوں نے اپنے مذہب کو ایک کونے میں لگایا ہے، اسی طرح وہ اسلام کو بھی بے وقعت کرنا چاہتے ہیں ۔ اس کے لیے انہوں نے پہلے انتہا پسندی کی اصطلاح وضع کی اور اسے مسلمانوں پر چسپاں کیا اور اب اس کے ساتھ دہشت گردی کا الزام بھی چسپاں کر دیا۔ کیا مسلمان واقعی انتہا پسند اور دہشت گرد ہیں ؟ آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں :
ا نتہا پسند ى
انتہا پسندی انگریزی کی اصطلاح Extremism کا ترجمہ ہے جو ہمارے ہاں پہلے پہل اخبارات میں استعمال ہوئی اور پھر دیکھتے دیکھتے مختلف مذہبی گروہوں پر چسپاں ہونے لگی۔ انگریزی زبان کا یہ لفظ Extreme سے نکلا ہے جس کے متعدد معانی بیان کیے گئے ہیں ۔
”انتہائی دور دراز، مرکز سے بعید ترین، سخت، شدید، انتہا پسند، آخری سرے کا، انتہا، حد، سرا وغیرہ۔ “
(Consice Oxford Dictionary)
اور Extremism کے معنی ”انتہا پسندی، افراطِ دوستی، غلو…“ وغیرہ
Webster کی یونیورسٹی ڈکشنری میں Extreme کے تحت لکھا گیا:
Outer most or farthest from a centre (extreme edge of the forest); Final; last; Being in the highest degree (extreme happiness۔extreme poverty.); Entending beyond norm (an extreme libral); The greatest or utmost degree or point; An extreme condition; A drastic or immoderate expendient.
(Websters New Revised Unversity Dictionary p.458)
”باہری طرف کی انتہائی سطح یا مرکز سے بعید ترین، (جنگل کا آخری سرا) انتہائی، آخری، سب سے اونچے درجے پر ہونا(انتہائی خوشی،انتہائی غربت) عام طور طریقے سے بالا تر (انتہائی آزاد منش) انتہائی یا آخری زاویہ یا نقطہ ، انتہائی حالت، ایک بالادست یا غیر متوازن فعل۔“
اس کا مطلب ایسا رویہ ہے جو معمول کے مطابق نہیں ہے۔ کسی معاشرے کے فکری و عملی پیمانوں سے باہر اور تہذیبی حدود سے خارج ایسا رویہ جس میں دلیل اور افہام و تفہیم کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ اس اعتبار سے منصفانہ جائزہ لیا جائے توپتہ چلتا ہے کہ اسلام انتہا پسندی نہیں بلکہ معمول کا ایک نظریہٴ حیات ہے جو تعمیر شخصیت اور استحکامِ اجتماعیت میں خاص کردار ادا