کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 68
خلفاء اسلام اپنے معاہدوں پر کس قدر مضبوطی سے قائم تھے اور عام لوگوں سے کتنا عادلانہ رویہ اختیار کیا ، اس کا اندازہ اسی مصنف کے الفاظ سے کریں وہ لکھتا ہے: ”عمالِ اسلام اپنے عہد پر اس درجہ مستحکم رہے اور انہوں نے اس رعایا کے ساتھ جو ہر روز شہنشاہ قسطنطنیہ کے عاملوں کے ہاتھوں سے انواع و اقسام کے مظالم سہا کرتی تھی، اس طرح کا عمدہ برتاؤ کیا کہ سارے ملک نے بکشادہ پیشانی دین اسلام اور عربی زبان کو قبول کر لیا۔ میں باربار کھتا ہوں کہ یہ ایسا نتیجہ ہے جو ہرگز بزورِ شمشیر نہیں حاصل ہو سکتا۔“ اسلام دین امن و سلامتی ہے لیکن اسے دفاع کا حق اللہ پاک نے دیا ہے۔ اگر کفر اسلام کو مٹانے پر تل جائے تو مسلمانوں کو اجازت ہے کہ پوری قوت کے ساتھ دفاع کریں ۔ اس دفاع میں وہ حق پر ہیں تو اللہ کی نصرت ان کے ساتھ شامل ہو گی۔ عصر حاضر کا شر اس وقت مسلمان پوری دنیا میں مظلوم ہیں ۔ مختلف کافر قومیں مسلمانوں پر ٹوٹ پڑی ہیں ۔ ان کی بستیوں کو تباہ کیا جا رہا ہے، ان کے وسائل کو لوٹاجا رہا ہے، ان کے بچوں اور عورتوں کو مارا جا رہا ہے، ان کے جوانوں اور ان کے بوڑھوں کو قتل کیا جا رہا ہے اور اُلٹا عالمی سطح پر ان کے خلاف دہشت گردی اور تشدد کا الزام لگایا جا رہا ہے تا کہ مسلمان دفاع نہ کر سکیں اور کافروں کے مظالم کا شکار رہیں ۔ ایسے حالات میں مسلمانوں کے اہل علم کی ذمہ داری ہے کہ کافروں کی سازشوں کو بے نقاب کریں اور اسلام کے پیغامِ امن کو عام کریں ۔ حقیقت یہ ہے کہ کفر فساد ہے اور کافر قوموں نے ہمیشہ فسا بپا کرنے کی کوششیں کی ہیں ۔ قرآن نے یہود ونصاریٰ کی سرگرمیوں کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے : ﴿ وَاَلْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَوَاةَ وَالْبَغْضَآءَ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ كُلَّمَآ اَوْقَدُوْا نَارًا لِّلْحَرْبِ اَطْفَاَهَا اللهُ وَيَسْعَوْنَ فِى الْاَرْضِ فَسَادًا وَاللهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِيْنَ﴾ (المائدۃ: 64) ”اور ہم نے ان میں باہم قیامت تک عداوت اور بغض ڈال دیا۔ جب کبھی لڑائی کی آگ بھڑکانا چاہتے ہیں ، اللہ تعالیٰ اس کو فرو کر دیتے ہیں ۔ اور یہ ملک میں فساد کرتے پھرتے ہیں ۔ اور اللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کو محبوب نہیں رکھتے۔“ اس وقت اہل کتاب ہی کا اُٹھایا ہوا شر ہے جس کی زد میں پوری اُمت ِمسلمہ ہے۔ سب سے بڑا شر ’دہشت گردی‘ کا الزام ہے اور اس الزام کے نتیجے میں امت ِمسلمہ کے صالح اور