کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 67
پڑے تو اس سے بھی دریغ نہ کیا جائے اور ان کی طاقت سے زیادہ ان پر بوجھ نہ ڈالا جائے۔“ خلافت ِراشدہ جو حضورِ اکرم کی صحیح جانشین تھی، ایسا پرامن ماحول تخلیق کرنے میں کامیاب ہوئی کہ اسے عالمی تاریخ میں مثالی حیثیت دی گئی۔ مشہور مغربی موٴرخ ڈاکٹر گستاولی بان نے خلافت ِراشدہ کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ،وہ تاریخ کی شہادت ہے۔ لکھتا ہے : ”خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم جس ملکی خوش تدبیری کو کام میں لائے وہ ان کی سپہ گری اور اس فن حرب سے مافوق تھی جسے انہوں نے آسانی سے سیکھ لیا تھا۔ شروع ہی سے انہیں ایسی اقوام سے کام پڑا جن پر سالہا سال سے مختلف حکومتوں نے نہایت بے رحمی سے ظلم کر رکھا تھا اور اس مظلوم رعایا نے نہایت خوشی کے ساتھ ان نئے ملک گیروں کو قبول کر لیا جن کی حکومت میں اُنہیں بہت زیادہ آسائش تھی۔ مفتوح اقوام کا طریقہ عمل کیا ہونا چاہیے، نہایت اور صریح طور پر مقرر کر دیا گیا اور خلفاء اسلام نے ملکی اغراض کے مقابل میں ہرگز بزورِ شمشیر دین حق کو پھیلانے کی کوشش نہیں کی،بلکہ بعوض اس کے کہ وہ بجبر اپنے دین کی اشاعت کرتے، وہ صاف طور پر ظاہر کر دیتے تھے کہ اقوامِ مفتوحہ کے مذاہب و رسوم اور اوضاع کی پوری طرح سے حرمت کی جائے گی اور اس آزادی (وتحفظ ِجان،مال وعزت)کے معاوضے میں وہ ان سے ایک بہت خفیف سا خراج لیتے تھے جو ان مطلوبات کے مقابل میں جو ان اقوام کے پرانے حکام ان سے وصول کیا کرتے تھے، نہایت ہی کم تھا۔ “(تمدنِ عرب ،ترجمہ بلگرامی:ص 131) یہی مصنف سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سلوک کا تذکرہ کرتا ہے جو انہوں نے اہل بیت المقدس سے کیا: ”بیت المقدس کی فتح کے وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اخلاق ہم پر ثابت کرتا ہے کہ ملک گیرانِ اسلام، اقوامِ مفتوحہ کے ساتھ کیا نرم سلوک کرتے تھے ، اور یہ سلوک ان مدارات کے مقابل میں جو صلیبیوں نے اس شہر کے باشندوں سے کئی صدی بعد کی، نہایت حیرت انگیز معلوم ہوتا ہے۔ اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے منادی کرادی کہ میں ذمہ دار ہوں کہ باشندگانِ شہر کے مال اور ان کی عبادت گاہوں کی حرمت کی جائے گی اور مسلمان عیسائی گرجوں میں نماز پڑھنے کے مجاز نہ ہوں گے۔“ (ايضاً) وہ مزید لکھتا ہے: ”جو سلوک عمروبن العاص رضی اللہ عنہما نے مصریوں کے ساتھ کیا، وہ اس سے کم نہ تھا۔ اس نے باشندگانِ مصر سے وعدہ کیا کہ پوری مذہب کی آزادی ، پوراانصاف، بلارورعایت اور جائیداد کی ملکیت کے پورے حقوق دیئے جائیں گے۔ اور ان ظالمانہ اور غیر محدود مطالبوں کے عوض میں جو شہنشاہ یونان ان سے وصول کرتے تھے، صرف ایک معمولی سالانہ جزیہ لیا جائے گا جس کی مقدار فی کس دس روپے تھی۔“(ایضاً: ص 132)