کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 62
بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے یا ملک میں فساد کرنے کی سزا دی جائے، اس نے گویا تمام لوگوں کو قتل کیا۔ اور جو اس کی زندگی کا موجب ہوا تو گویا تمام لوگوں کی زندگی کا موجب ہوا۔“ امن کو تباہ کرنا اور انسانی زندگی سے کھیلنا ’فساد‘ ہے۔ قرآن نے اس کی سزا تجویز کی ہے : ﴿ اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللهَ وَرَسُوْلَه وَيَسْعَوْنَ فِى الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُّقَتَّلُوْٓا اَوْ يُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُقَطَّعَ اَيْدِيْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ذٰلِكَ لَهُمْ خِزْىٌ فِى الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِى الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ ﴾ (المائدۃ : 33) ”جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑائی کریں اور ملک میں فساد کرنے کو دوڑتے پھریں ان کی یہ سزا ہے کہ قتل کر دیئے جائیں یا سولی چڑھا دیئے جائیں یا ان کے ایک طرف کے ہاتھ اور ایک طرف کے پاؤں کاٹ دیئے جائیں یا ملک سے نکال دیئے جائیں ۔ یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔“ قرآن جس کو فساد کہہ رہا ہے، اسے اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ اور روے زمین کے امن کو تباہ کرنے کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ کیونکہ اللہ اور اس کے رسول دنیا میں امن چاہتے ہیں جبکہ کفر و انکارِ خدا ’فساد‘ کا متقاضی ہے۔ اس دنیا میں فساد اسلام کی وجہ سے نہیں ، کفر کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ کفر اللہ اور اس کے رسول کے خلاف بھی جنگ ہے اور روے زمین کے امن کے خلاف بھی۔ قرآن میں دسیوں جگہ فساد کی مذمت کی گئی ہے۔ یہ انسانی امن و سکون کے لیے مہلک ہے اور اس میں مبتلا ہونے سے روکا گیا ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ’فساد‘ کا لفظ جس وقت مطلق استعمال ہوتا ہے تو اس وقت تمام برائیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں : فإذا أطلق الصلاح يتناول جميع الخير وكذلك الفساد يتناول جميع الشر … وكذلك اسم المصلح والمفسد (کتاب الایمان: 44) ”صلاح کا لفظ جب مطلقاً استعمال ہوتا ہے تو تمام خیر کو شامل ہوتا ہے اور فسادکا لفظ تمام برائیوں کو۔ اسی طرح مصلح اور مفسد میں بھی تمام معانی پائے جاتے ہیں ۔ “ علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فساد کی انواع بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ومنه قتل الناس وتخريب منازلهم وقطع أشجارهم وتعزير أنهارهم ومن الفساد الكفر بالله والوقوع فى معاصيه (فتح القدیر: 2/203) ”فساد ہی کی قسم سے لوگوں کو قتل کرنا، ان کے گھروں کا مسمار کرنا دریاؤں کو خشک کرنا نیز اللہ تعالیٰ کا انکار اور اس کی نافرمانی فساد ہی کی مختلف صورتیں ہیں ۔“