کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 6
کارکنوں نے گھیرا ڈال لیا۔ جناب قاضی حسین احمد نے اس دہشت گردی کا الزام متحدہ پر عائد کرتے ہوئے ان پر پابندی کا مطالبہ کیا، جس کے جواب میں متحدہ کی قیادت نے انہیں محتاط لب و لہجہ استعمال کرنے کی تلقین کی۔ اس سانحہ کو دہشت گردی کے علاوہ سیاسی رنگ بھی دیا جاسکتا ہے جس کے پس منظر میں جماعت ِاسلامی اور متحدہ کی دیرینہ مخاصمت کارفرما ہے۔ اس حادثہ کے بعد کراچی میں اکا دکا تشدد کے واقعات بھی ہوئے جن میں بفرزون میں مبینہ دہشت گرد کامران عرف عاطف کے ساتھ پولیس مقابلے کے دوران ایک بے گناہ عورت جو گھروں میں کام کاج کرتی تھی، کا قتل بھی شامل ہے۔ کامران کی نشاندہی پر پولیس نے لیاری سے اس کے گروپ کے مزید چہ افراد کو گرفتار کرکے بڑی تعداد میں دھماکہ خیز مواد برآمد کیا۔ اس کے جواب میں کراچی کی بندرگاہ پر دھماکہ کرکے خطرے کی گھنٹی بجائی گئی۔ یہ واقعہ 25 مئی 2004ء کو ہوا۔ (3) 26 مئی کوکراچی میں دہشت گردی کا دوسرا اہم واقعہ امریکی قونصل جنرل کی رہائش گاہ کے نزدیک پاک امریکن کلچرل سنٹر کے سامنے ہوا۔ کئی بم دھماکوں سے یہ علاقہ گونج اٹھا۔ دھماکوں کے نتیجے میں ہیڈ کانسٹیبل جہانگیر جاں بحق اور اخبارنویسوں ، فوٹو گرافروں اور پولیس اہلکاروں سمیت 34/افراد زخمی ہوگئے۔ یہ حادثہ اہل کراچی کو جھنجھوڑنے، خبردار کرنے اور ایک بار پھر دہشت گردی کی طرف متوجہ کرنے کے لئے کافی تھا۔ (4)موجودہ دہشت گردی کی لہر کا سب سے المناک سانحہ کراچی میں ہی اتوار کی صبح 30 مئی کو ممتاز عالم دین مولانا مفتی نظام الدین شامزئی کی شہادت کی صورت رونما ہوا۔ مفتی شامزئی کی شہادت نے شہریوں کے خوف و ہراس میں نہ صرف غیرمعمولی اضافہ کیا بلکہ انتظامیہ اور پولیس کی چولیں بھی ہلا دیں ۔ اس کے بعد پورا شہر ہنگامہ آرائی کی لپیٹ میں آگیا اور سڑکیں میدانِ جنگ کا منظر پیش کرنے لگیں ۔ مشتعل شہریوں نے تھانے پر حملہ کردیا اور پولیس اہلکاروں کو بھاگ کر جانیں بچانا پڑیں ، جبکہ حوالات میں موجود قیدی بھی فرار ہوگئے۔ تفصیلات کے مطابق اتوار کی صبح پونے آٹھ بجے مفتی شامزئی اپنے بیٹے، بھتیجے اور ڈرائیور کے ہمراہ جامعہ بنوریہ جانے کے لئے نکلے تو ان کی رہائش گاہ کے باہر پہلے سے گھات لگائے 10،12 مسلح افراد نے ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔ مولانا زخموں کی تاب نہ لاکر شہید اور ان کے تین ساتھی زخمی ہوگئے جنہیں لیاقت ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا۔ مولانا کے جنازے پر