کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 58
(2)سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا فِيْ غَيْرِ كُنْهِه حَرَّمَ اللهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ )(سنن ابی داود: 2760، والنسائی: 4747، وزاد النسائی: أن یشمّ ریحھا) ” جس نے کسی ’معاہد‘ کو نا حق کے قتل کیا تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام کردیتے ہیں ۔“ ٭ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کی روایت میں اضافہ ہے کہ اللہ اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام کر دیتے ہیں ۔ امام منذری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ( فِي غَيْرِ كُنْهِه ) کا مطلب ہے : ”ایسے وقت کے علاوہ جس میں اس کا قتل جائز ہو یعنی کسی قسم کامعاہدہ نہ ہو۔“ (الترغیب والترہیب: 3/299،منذری، الترغيب والترهيب من الحديث الشريف، 1401، دار الفکر) ٭ اور امام منذری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے جس کے الفاظ یوں ہیں : ( مَنْ قَتَلَ نَفْسًا مُعَاهَدَةً بِغَيْرِ حَقِّهَا لَمْ يَرَحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَ الْجَنَّةِ لَتُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ مِائَةِ عَامٍ ) ”جس نے کسی ’معاہد‘ کو نا حق قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پائے گا، حالانکہ جنت کی خوشبو تو سو سال کی دوری سے بھی آسکتی ہے۔“ امام البانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے۔( الترغیب والترہیب: 3/299) ٭ درج بالا احادیث ِمبارکہ ’معاہد‘ کو جان بوجہ کر قتل کرنے کے بارے میں ہیں ۔ جہاں تک ’معاہد‘ کو غلطی سے قتل کرنے کامسئلہ ہے تو اس میں دیت اور کفارہ ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَإِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ بَينَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثَاقٌ فَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَا أَهْلِه وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُوٴْمِنَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ تَوْبَةً مِنَ اللهِ وَكَانَ اللهُ عَلِيمًا حَكِيمًا﴾ (النساء: 92) ”اور اگر مقتول )جو غلطی سے قتل ہوا ہے( اس قوم سے ہو کہ تم میں اور ان میں عہد وپیمان ہے تو خون بہا لازم ہے، جو اس کے کنبے والوں کو پہنچایا جائے اور مسلمان غلام کا آزاد کرنا بھی )ضروری ہے( پس جو نہ پائے اس کے ذمے دو مہینے کے لگاتار روزے ہیں ، اللہ تعالیٰ سے بخشوانے کے لئے اور اللہ تعالیٰ بخوبی جاننے والا اور حکمت والا ہے۔“