کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 57
(1)سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( مَنْ قَتَلَ نَفْسًا مُعَاهَدًا لَمْ يَرَحْ رَآئِحَةَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا تُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ أَرْبَعِينَ عَامًا ) (صحیح بخاری: 3166) ”جس نے کسی ’معاہد‘ کو قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پائے گا حالانکہ اُس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے محسوس کی جا سکتی ہے۔“ اس حدیث ِمبارکہ کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے كتاب الجزيۃ میں بابُ إِثْم من قَتل معاہدا بغیر جُرم کہ ’معاہد کو بغیر جرم کے قتل کرنے کا گناہ‘ کے تحت جبکہ کتاب الدیات میں باب إثمِ من قتَل ذِميّا بغيرِ جرْمكه ’ذمی کو بغیر جرم قتل کرنے کا گناہ‘ کے ضمن میں ذکر کیا ہے۔ جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ درج بالا سخت ترین وعید ’ذمی‘ اور ’معاہد‘ کو بغیر جرم کے قتل کرنے پر ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہاں یعنی کتاب الدیات میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ’ذمی‘ کے بارے میں باب باندھا ہے حالانکہ اس بات کے تحت جو حدیث ہے اس میں ’معاہد‘ کا ذکر ہے، جبکہ کتاب الجزیۃ میں باب بھی ’معاہد‘ کے نام سے باندھا اور اس کے تحت حدیث میں بھی ’معاہد‘ کا ہی ذکر ہے، تو ’معاہد‘ سے مراد )امام صاحب کے نزدیک( وہ شخص ہے جس کا مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ ہو، خواہ وہ معاہدہ جزیہ کے ساتھ ہو، حاکم کی طرف سے ہدیہ کے طور پر ہو یا پھر کسی بھی مسلمان کی جانب سے پناہ کے طور پر۔ (فتح الباری: 12/259) ٭ اس حدیث کو امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے درج ذیل الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے: ( مَنْ قَتَلَ قَتِيلاً مِنْ أَهْلِ الذِّمَّةِ لَمْ يَجِدْ رِيحَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ أَرْبَعِينَ عَامًا )(سنن النسائی: 4750) ”جس نے اہل ذمہ میں سے کسی کو قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پائے گا حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے سونگھی جا سکتی ہے۔“ ٭ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو صحیح سند کے ساتھ ان الفاظ سے بھی ذکر کیا: ( مَنْ قَتَلَ رَجُلا مِنْ أَهْلِ الذِّمَّةِ لَمْ يَجِدْ رِيحَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ سَبْعِينَ عَامًا ) (سنن النسائی: 4749) ”جس نے اہل ذمہ میں سے کسی کو قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پائے گا حالانکہ اس کی خوشبو تو ستر سال کی مسافت کی سونگھی جا سکتی ہے۔“