کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 55
فرماتے ہیں کہ ایک چیلا آئے گا اور کھے گا کہ میں ایک مسلمان کو وسوسے ڈالتا رہا حتیٰ کہ اس نے اپنی بیوی کو طلاق دیدی، شیطان لعین کہے گا کہ ممکن ہے کہ وھ پھر شادی کر لے، ایک اور چیلا آئے گا اور کھے گا کہ میں ایک مسلمان کو بہکاتا رہا حتیٰ کہ اس نے اپنے والدین کی نافرمانی کرلی، شیطان لعین کہے گا کہ ممکن ہے کہ وہ ان کے ساتھ نیک سلوک کر لے، ایک اور چیلا آئے گا اور کھے گا کہ میں ایک مسلمان کے ساتھ لگا رہا یہاں تک کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کر لیا، ابلیس کہے گا کہ ہاں ہاں تو انعام کا حق دار ہے! ایک اور چیلا آئے گا اور کھے گا کہ میں ایک مسلمان کو بہکاتا رہا حتیٰ کہ اس نے قتل کر دیا، ابلیس لعین کہے گا کہ ہاں ہاں تو انعام کا حقدار ہے! اور اسے تاج پہنائے گا۔“ (24) سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مَنْ قَتَلَ مُوٴْمِنًا فَاغْتَبَطَ بِقَتْلِه لَمْ يَقْبَلِ اللهُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا ) ”جو شخص کسی موٴمن کو قتل کرے اور اپنے آپ کو حق بجانب سمجھے تو اللہ تعالیٰ اس سے کوئی پس وپیش قبول نہ کریں گے۔“ اس حدیث ِمبارکہ کو امام ابوداوٴد رحمۃ اللہ علیہ نے بھی روایت کیا ہے اور وہ پھر خالد بن دہقان سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے یحییٰ بن یحییٰ غسانی سے ( فَاغْتَبَطَ ) کے معنی پوچھے تو انہوں نے کہا : ”الذين يقاتلون فى الفتنة، فيقتل أحدهم، فيرٰى أحدهم أنه على هدى لا يستغفر الله، يعني من ذٰلك“کہ ”وہ لوگ جو کسی فتنہ میں لڑائی کریں ، پس وہ بعض کو قتل بھی کریں اور پھر اپنے آپ کو ہدایت پر سمجھتے ہوئے اللہ تعالیٰ اس بات کی )یعنی مسلمانوں کو قتل کرنے پر( معافی بھی نہ مانگیں ، یہی اس لفظ کا مطلب ہے۔“(سنن ابی داود: 4270) (25)سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( يَخْرُجُ عُنُقٌ مِنَ النَّارِ يَتَكَلَّمُ، يَقُولُ: وُكِلْتُ الْيَوْمَ بِثَلاثَةٍ: بِكُلِّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ، وَمَنْ جَعَلَ مَعَ اللهِ إِلٰهًا آخَرَ، وَمَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ حَقٍّ، فَيَنْطَوِي عَلَيْهِمْ فَيَقْذِفُهُمْ فِي غَمَرَاتِ جَهَنَّمِ ) ”جہنم سے )قیامت کے دن( ایک گردن نکلنے گی جو کہ باتیں کرتی ہوگی، وہ کہے گی کہ مجھے آج تین کے قسم کے لوگوں پر مسلط کیا گیا ہے: ہر سرکش اور کینہ پرور پر، اور اس شخص پر جس