کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 5
سے 7 مکانوں کو نقصان پہنچا۔ اخباری ذرائع کے مطابق فرنٹیر کور اور دہشت گردوں کے درمیان ایک گھنٹہ تک فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس کے بعد حملہ آور فرار ہوگئے اور کسی کی گرفتاری عمل میں نہ آئی۔(روزنامہ نوائے وقت، 22 جون 2004ء) (7)یاد رہے کہ سوئی میں 6 جون کو بھی ایف سی قلعہ اور تھانے پر 43 راکٹ داغے گئے تھے جس سے کنٹرول روم تباہ ہوگیا۔ سوئی میں اس دہشت گردانہ کارروائی کے بعد ایران سے بھارت گیس پائپ لائن لے جانے کامنصوبہ بھی سوالیہ نشان بن گیا۔ کیونکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اس قدر نااہلی اور کوتاہی کے تناظر میں یہی سمجھا جاسکتا ہے کہ پاکستان کسی ایسی بڑی ذمہ داری کے تقاضے نبھانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔یہ تو صوبہ بلوچستان میں دہشت گردی کے پانچ نمایاں واقعات کا مختصر تذکرہ تھا۔ یاد رہے کہ ان واقعات میں کوئٹہ کے حادثہ کے علاوہ باقی تمام واقعات قومی تنصیبات اور منصوبوں کو سبوتاژ کرنے اور متاثر کرنے پر مشتمل ہیں ۔ صوبہ سندھ (کراچی) (1)بلوچستان سے آغاز ہونے والی دہشت گردی آہستہ آہستہ کراچی میں جکڑ پکڑنے لگی۔ کراچی میں حالیہ دہشت گردی کا آغاز شیعہ عبادت گاہ میں بم دھماکہ سے ہوا جو 8 مئی کو شاہراہ لیاقت پرواقعہ مسجد حیدری پر نمازِ جمعہ سے ڈیڑھ گھنٹہ قبل ہوا۔ اس کے نتیجے میں 23 افراد جاں بحق اور 200 افراد شدید زخمی ہوگئے۔ اس دھماکے کے بعد عوام کی احتجاجی کارروائیوں میں گاڑیاں اور پٹرول پمپ نذرِ آتش ہوئے اور شہر بھر میں اس قدر افراتفری پھیل گئی کہ پولیس کو لاٹھی چارج اور شیلنگ کا سہارا لینا پڑا۔ اس دھماکہ کا قومی معیشت پر پہلا اثر یہ پڑا کہ کراچی سٹاک مارکیٹ میں 20/ارب ڈوب گئے۔ صوبائی مشیرآفتاب شیخ نے دھماکہ کے بارے میں خود کش حملہ کا اندیشہ ظاہر کیا لیکن دیگر ذرائع سے اس کی تصدیق نہ ہوسکی۔ ( اخبارات:8مئی ) (2) 8 مئی کو دہشت گردی کی اس کارروائی کے بعد کراچی میں 26مئی تک دہشت گردانہ کارروائیوں میں انقطاع رہا اور اس دوران معمول کی شہری زندگی جاری رہی۔ البتہ 12 مئی کو قومی اور صوبائی اسمبلی کے ضمن انتخابات کے موقع پر فائرنگ اور تشدد آمیز واقعات میں 12 ہلاکتیں ہوئیں ۔ مجلس عمل کے کارکنوں کے جنازوں کے موقع پر دوبارہ فائرنگ کی گئی اور اندھی فائرنگ سے بچنے کے لئے لوگوں نے سڑک پر لیٹ کر جان بچائی جبکہ قاضی حسین احمد کے گرد