کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 44
سابقہ شریعتوں میں قتل کی تعظیم اور حرمت (1)اللہ تعالیٰ سیدنا آدم علیہ السلام کے دونوں بیٹوں میں سے ایک کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ﴿ فَطَوّعَتْ لَه نَفْسُه قَتْلَ أَخِيهِ فَقَتَلَه فَأَصْبَحَ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴾(المائدۃ: 30) ”پس اسے اس کے نفس نے اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کر دیا اور اس نے اسے قتل کر ڈالا، جس سے نقصان پانے والوں میں سے ہوگیا۔“ (2)اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ مِنْ أَجْلِ ذٰلِكَ كَتَبْنَا عَلَىٰ بَنِي إِسْرَآئِيلَ أَنَّه مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَن أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا﴾ ”اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہو، قتل کر ڈالے گا تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا، اور جو شخص کسی ایک کی جان بچالے، اس نے گویا تمام لوگوں کو زندہ کر دیا۔“ (المائدۃ : 32) (3)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرماتے ہیں : ( لَا تُقْتَلُ نَفْسٌ ظُلْمًا إِلَّا كَانَ عَلَى ابْنِ آدَمَ الْأَوَّلِ كِفْلٌ مِنْ دَمِهَا، لِأَنَّه أَوَّلَ مَنْ سَنَّ الْقَتْلَ)(صحیح بخاری: 3335، صحیح مسلم: 1677) ”کوئی شخص بھی مظلوم قتل نہیں کیا جاتا مگر آدم علیہ السلام کے بیٹے پر بھی اس کا گناہ ہوتا ہے، کیونکہ پہلا شخص ہے جس کی قتل کیا“ (4)اللہ تعالیٰ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی بابت بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے خضر علیہ السلام سے کہا: ﴿ أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُكْرًا ﴾(الکہف: 74) ”کیا آپ نے ایک پاک جان کو بغیر کسی جان کے عوض مار ڈالا؟ بیشک آپ نے تو بڑی نا پسندیدہ حرکت کی۔“ (5)اللہ عز وجل نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: ﴿ فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِي مِنْ شِيعَتِه عَلَى الَّذِي مِنْ عَدُوِّه فَوَكَزَه مُوسَىٰ فَقَضَىٰ عَلَيْهِ قَالَ هٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ إِنَّه عَدُوٌّ مُضِلٌّ مُبِينٌ، قَالَ رَبِّ إِنِّى ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْلِي فَغَفَرَلَه إِنَّه هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ﴾(القصص: 15، 16) ”اس کی قوم والے نے اس کے خلاف جو اس کے دشمنوں میں سے تھا اس سے فریاد کی، جس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کے مکا مارا جس سے وہ مر گیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کہنے