کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 43
بم دھماکوں اور دہشت گردی کو جہاد قرار دینا کون سی عقلمندی اور دین ہے؟ درج بالا تمہید سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ابلیس لعین نیک لوگوں کی نیکی اور ان کے دین کو فاسد کرنے کے لئے خوارج کی مانند ان میں انتہا پسندی کی روش پیدا کر دیتا ہے۔ اس انتہا پسندی اور دوسرے فتنوں سے بچنے کی واحد صورت یہ ہے کہ اہل علم کی طرف رجوع کیاجائے۔ جیساکہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مناظرہ کے بعد دو ہزار خوارج اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مباحثہ کے بعد وہ جماعت جس نے باطل کا ارادہ کیا تھا، واپس راہ حق کی طرف پلٹ آئے۔ اسکے بعدمیں عرض کرتا ہوں کہ آج کی رات، کل کی رات کے کتنی مشابہ تھی، ریاض شہر میں آج جو بھی تباہی وبربادی دیکھنے میں آئی اور اُس سال)یعنی 1424ہ( کے شروع میں مکہ مکرمہ اور مدینہ نبویہ میں جو اسلحہ اور دہماکہ خیز بارود برآمد ہوا، یہ سب شیطان کے گمراہ کرنے اور غلو وانتہا پسندی کو مزین کرنے کے سبب تھا، یہ تمام کام فساد فی الارض میں داخل ہیں اور جرم کی قبیح ترین صورت ہیں ، اور شیطان کا ان کو یہ باور کراناکہ یہ جہاد ہے یہ اس سے بھی فروتر ہے۔ کسی معصوم جان کو قتل کرنا، بے گناہ مسلمانوں اور معاہدین )یعنی وہ غیر مسلم جو کسی معاہدے کے بعد کسی مسلم علاقے میں داخل ہوں ( کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا، جو لوگ امن میں ہیں ان کو خوف و دہشت میں مبتلاکرنا، عورتوں کو بیوہ، بچوں کو یتیم کرنا اور عمارتوں کو ان کے رہنے والوں سمیت ملیامیٹ کر دینا کس عقل اور دین کی رو سے جہاد بنتا ہے؟! آئندہ سطور میں ، میں پرانی شریعتوں میں قتل کی تعظیم اور شریعت ِ محمدیہ میں مسلمانوں کے خود کشی کرنے اور مسلمانوں اور مجاہدین کو جان بوجہ کر یا غلطی سے قتل کرنے والوں کے بارے میں کتاب و سنت کے تمام نصوص کو ایک جگہ جمع کرنے کی کوشش کروں گا ﴿ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيٰى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ ﴾(الانفال:42) کہ ”تاکہ جو ہلاک ہو، دلیل پر )یعنی یقین جان کر( ہلاک ہو اور جو زندہ رہے، وھ بھی دلیل پر )حق پہچان کر( زندہ رہے۔“ اور میں اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ راہ حق سے بھٹکنے والوں کو حق کی طرف ہدایت دے اور اُن کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جائے اور مسلمانوں کو شریروں کے شر سے بچائے۔ بے شک اللہ تعالیٰ دُعا کو سننے والا اور قبول کرنے والا ہے۔