کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 42
شرک کی تہمت لگا کر اس پر تلوار سونت لیتا ہے۔“ حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا: ”اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ان دونوں میں سے کون شرک کے زیادہ قریب ہے؟ الزام لگانے والا یا جس پر الزام لگایاجارہا ہے“ فرمایا: ( بَلِ الرَّامِي ) ”بلکہ الزام لگانے والا۔“ (رواہ البخاری فی التاریخ وابویعلی وابن حبان والبزار، دیکھئے: السلسلة الصحيحة للألبانى3201) (4) نوعمری میں غلط فہمی کا امکان غالب ہوا کرتا ہے۔ اس پر سیدنا عروہ بن زبیر رحمۃ اللہ علیہ کی یہ حدیث دلالت کرتی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے اُمّ المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا … اور میں اس وقت نوخیز یعنی چھوٹی عمر کا تھا … کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے: ﴿ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآئِرِ اللهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا﴾(البقرۃ: 158)کہ ”صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں ، اس لئے بیت اللہ کا حج وعمرہ کرنے والے پر ان کا طواف کر لینے میں بھی کوئی گناہ نہیں ۔“ میں اس شخص پرکوئی گناہ نہیں سمجھتا جو صفا و مروہ کی سعی نہ کرے، اُمّ المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ”ہرگز نہیں ! اگر اس آیت کا مطلب یہی ہوتا جو تم کہہ رہے ہو تو آیت اس طرح ہوتی: فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ لَا يَطَّوَّفَ بِهِمَا، حقیقت میں یہ آیت انصار کے بارے میں نازل ہوئی جو منات بت کے نام کا احرام باندہتے تھے اور یہ بت ’وادی قدید‘ کے قریب تھا اور صفا مروہ کی سعی کو اچھا نہیں سمجھتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآئِرِ اللهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا ﴾ (ايضاً)کہ ”بے شک صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں ، اس لئے بیت اللہ کا حج وعمرہ کرنے والے پر ان کا طواف کر لینے میں بھی کوئی گناہ نہیں ۔“(صحیح بخاری: 4495) سیدنا عروہ بن زبیر رحمۃ اللہ علیہ کا شمار تابعین کے بہترین علماء میں ہوتا ہے، اور وہ مدینہ نبویہ کے سات معروف فقہاء میں سے ہیں ۔ انہوں نے اپنی غلط فہمی کا عذر یہ پیش کیا کہ جب میں نے یہ سوال کیا تو اُس وقت میری عمر چھوٹی تھی۔اس سے یہ بات واضح ہے کہ نوعمری میں غلط فہمی کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اہل علم کی طرف رجوع کرنے میں ہی خیروبرکت اور سلامتی ہے۔