کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 35
”جنت کو ناپسندیدہ اَفعال )جن کے کرنے کا دل نہ چاہے(، جبکہ جہنم کو )نفس کی( مرغوب چیزوں کے ساتھ ڈھانپ دیا گیا ہے۔“ (2)اور اگر مسلمان نیکو کار اور عابد ہو تو شیطان اس کے لئے دین میں غلو اور تشدد پسندی کو اس طرح مزین کر کے پیش کرتا ہے کہ اس کی نیکی برباد ہوجاتی ہے اور اسے اپنے تقویٰ اورپرہیزگاری کا ذرّہ برابر بھی فائدہ نہیں ہوتا۔ یہ غلو بھی ناپسندیدہ ہے، فرمانِ باری ہے: ﴿يٰٓأَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللهِ إِلَّا الْحَقَّ ﴾ (النساء: 171 ) ”اے اہل کتاب! اپنے دین کے بارے میں حد سے نہ گزر جاؤ، اور اللہ تعالیٰ پر بجز حق کے کچھ نہ کہو۔“نیز فرمایا: ﴿ قُلْ يٰٓأَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوا أَهْوَاءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِيرًا وَضَلُّوا عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ ﴾ (المائدۃ: 77) ”کہہ دیجئے اے اہل کتاب! اپنے دین میں ناحق غلو اور زیادتی نہ کرو اور ان لوگوں کی نفسانی خواہشوں کی پیروی نہ کرو جو پہلے سے بہک چکے ہیں اور بہتوں کو بہکا بھی چکے ہیں اور سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں ۔“ اسی طرح فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے : ( إِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِّينِ، فَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِالْغُلُوِّ فِي الدِّينِ ) ” دین میں انتہا پسندی سے بچو، تم سے پہلے )اہل کتاب وغیرہ( دین میں انتہا پسندی اختیار کرنے کے سبب ہی تباہ برباد ہوگئے۔“ (نسائی وغیرہ: 3057 ، سلسلہ اَحادیث صحیحہ ،1283) ذاتی رائے پر اعتماد اور علما سے پوچھنے میں گریز! ان انتہا پسندوں کے لئے شیطان اپنی خواہشات کی پیروی اور دین کے غلط فہم کوبہت اچھے اعمال بنا کر پیش کرتا ہے، اور ان کے دل میں یہ بات ڈال دیتا ہے کہ علماے حق کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت نہیں تاکہ یہ علماے ربانی انہیں صحیح راہ نہ دکھلا دیں اور یہ لوگ اپنی گمراہی اور کج فہمی پر قائم رہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَىٰ فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللهِ ﴾ ( ص ٓ: 26) ”اور اپنی نفسانی خواہش کی پیروی نہ کرو، ورنہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی۔“ نیز فرمایا: ﴿ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ هُدًى مِنَ اللهِ ﴾ (القصص: 50)