کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 30
کے ہمسایہ ہونے کی وجہ سے وہاں کے حالات میں بھی واضح تبدیلی آئی ہے۔ سعودی عرب میں دہشت گردی کے لئے ان طبقات کو آگے لایا جارہاہے جن کی سعودی حکومت سے دینی یا سیاسی بنیادوں پر مخاصمت ہے۔ جہاں تک دینی طبقے کو شہ دینے کا تعلق ہے تو اس کے توڑ کے لئے وہاں کے علما سرگرم ہیں ، جس کا ایک مظہر محدث کے حالیہ شمارہ میں شائع شدہ ان بم دھماکوں کے بارے میں انتہائی بزرگ سعودی عالم شیخ عبدالمحسن عباد کا وہ کتابچہ ہے جس میں انہوں نے دہشت گردوں کی ان کارروائیوں کے خلاف ِاسلام ہونے کا موقف صریح دلائل کی روشنی میں پیش کیا ہے۔ سعودی عرب کے بم دھماکوں کے موٴید بعض سعودی حضرات کے خیالات سننے کاہمیں اتفاق ہوا ہے۔ ان بظاہر انتہائی دیندار نوجوانوں کو جس طرح عالمی استعمار اپنے مقاصد کے لئے استعمال کررہا ہے، اس کی بعض تفصیلات چشم کشا ہیں ۔ سعودی حکومت میں شامل بعض اہم شخصیات نے بھی ان نوجوانوں کو بھڑکانے میں غیرمعمولی کردار ادا کیا ہے۔ امریکی دباؤ کی بنا پر گذشتہ سال بھر میں سعودی عرب میں نصابِ تعلیم کی تبدیلی، خواتین کی آزادانہ نقل وحرکت کی حمایت اور ان کو مردوں کے شانہ بشانہ لانے کی کوششوں کے علاوہ ذرائع ابلاغ پر مغربی نظریات اور تصورات کو بڑی تیزی سے فروغ دیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف بعض مخفی ہاتھوں نے دیندار عناصر کو ان اباحیت پسندانہ اقدامات کے خلاف بھی کھڑا کردیا ہے۔ ان دیندار عناصر نے جب اعلیٰ حکومتی عہدیداران سے ملنے کی کوشش کی تو بعض بااثر شخصیات ان کی بات کو آگے پہنچانے اوران کی ملاقات کے راستے میں حائل ہوگئیں ۔ ایسی صورتحال لگاتار کئی ملاقاتوں تک جاری رہی، جس کے بعد یہ دینی عناصر اس نتیجے پر پہنچے کہ آئندہ سے حکومتی ذمہ داروں سے بات چیت ختم کرکے ہمیں اپنے تئیں ہی اس لادینیت کے خلاف کھڑے ہوجانا چاہئے۔ مختصر الفاظ میں یہ وہ پس منظر ہے، جس میں سعودی عرب میں اوّلاً تو دینی تصورات کو نشانہ بنایا گیا دوسری طرف اس کا دفاع کرنے والوں کا اعتماد اس درجے مجروح کیا گیاکہ انہیں اپنی بات سنانی مشکل نظر آنے لگی، نتیجتاً انہوں نے اس منکر کو اپنے ہاتھوں روکنے کی کوششیں شروع کردیں جس کا نتیجہ اس دہشت گردی کی صورت میں نکلا۔ اس سارے کھیل میں مخفی ہاتھ کا کردار بہت واضح ہے، لیکن افسوس کہ متاثرہ دینی عناصر اس صورتحال کو سمجھ نہیں پارہے۔ ان بم دھماکوں میں اسرائیل اور امریکی ہاتھ کو قطعاً نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ سعودی عرب