کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 29
٭ اگلے روز القاعدہ کے مبینہ چیف عبدالعزیز المقیم نے الخُبرمیں 10 بھارتیوں کو قتل کرنے کا دعویٰ کیا، انہوں نے کہا کہ ہم نے اس واقعہ میں کوشش کی ہے کہ کسی مسلمان کا خون نہ بہے۔ ان میں امریکہ، برطانیہ، جاپان اور اٹلی کے باشندے بھی شامل تھے جن میں کسی کوزندہ نہیں چھوڑا گیا۔ (یکم جون 2004ء) ٭ یکم جون کو روزنامہ نوائے وقت کی خبر تھی کہ سعودی عرب نے الخُبرمیں 22 یرغمالیوں کو ہلاک کرکے فرار ہونے والے تین مسلم حملہ آوروں کی تلاش کا کام بڑے پیمانے پر شروع کردیاہے۔ الخُبرشہر کی ناکہ بندی کردی گئی ہے۔ 2 جون کو صدر بش نے شاہ فہد سے فون پر ان دہشت گردی کے واقعات پر تعزیت کااظہار کیا۔ (نوائے وقت: یکم و 2 جون 2004، ) ٭ ان واقعات کے بارے سعودی وزیرخارجہ سعود الفیصل نے اپنے بیان میں کہا : ”سعودی عرب نے ان انتہا پسندوں کے خلاف جدوجہد تیز کرنے کا عزم کا اظہارکیا ہے جنہوں نے مغربی ممالک کے باشندوں کے تعاقب کی جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ ٭ دوسری طرف مشتبہ انتہاپسندوں نے ریاض میں آئرلینڈ کے فری لانسر صحافی اورکیمرہ مین سیمون کمبرز کو فلم بنانے کے دوران گولی مار کر ہلاک کردیا۔ جبکہ بی بی سی کارپورٹر فرینک گارڈنر شدیدزخمی ہوا۔“ (نوائے وقت:8جون) بی بی سی کی اس ٹیم پر یہ فائرنگ عین اس وقت ہوئی جب سعود الفیصل جدہ میں بیان دے رہے تھے۔ یاد رہے کہ غیر ملکیوں کے خلاف یہ پرتشدد کارروائیاں عراق کی ابوغریب جیل میں امریکہ پر تشدد کارروائیوں کی 1000 تصاویر کی عالمی پریس میں اشاعت کے ایک ہفتہ بعد شروع ہوئیں ۔ ( انسانیت سوز تشدد کی تفصیلات کیلئے 6،7،10،15 ،21،23 مئی کے نوائے وقت ملاحظہ کیجئے) ٭ سعودی حکومت سے اظہار ِیکجھتی کے لئے صدر جنرل پرویز مشرف نے 11 جون کو شہزادہ عبداللہ سے فون پرتبادلہ خیال کیا : ”شیطان کے حواری دہشت گردوں نے عالمی امن داوٴ پرلگا دیا۔ تمام مسلم ممالک کو دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے مل جل کر متفقہ لائحہ عمل اختیارکرنا چاہئے۔“ (نوائے وقت : 12 جون) ٭ انہی دنوں ریاض میں ایک 19 سالہ امریکی ایروناٹکس انجینئر جانسن کو یرغمال بنا کر مختلف جیلوں میں قید القاعدہ کے اراکین کو چھوڑنے کا مطالبہ کیا گیا۔ (جنگ: 17 جون 2004) سعودی عرب میں جاری دہشت گردی کا ایک پس منظر تو وہ ردّ عمل ہے جو مسلمانوں میں امریکہ کے خلاف پایا جاتا ہے۔ دوسری طرف عراق پر قابض ہونے کے بعد سعودی عرب