کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 28
ہے اور فلاں طریقے سے اس میں کوتاہی کو دور کیا جاسکتا ہے، اس کے بعد وہ استعمال ہونے کے لئے آسانی سے تیار ہوجاتے ہیں ۔ یہ کام ماسٹر پلان کے کل پرزے بآسانی کرلیتے ہیں ، دوسری طرف ملک میں بڑھتی بے روزگاری اور بے اطمینانی بھی کئی نوجوانوں کے ناپسندیدہ کاموں کی طرف بادلِ نخواستہ مجبور کردیتی ہے۔ یہاں ہمارا مقصد ان تخریب کاروں / دہشت گردوں کی صفائی پیش کرنا نہیں بلکہ اس امر کی طرف توجہ دلانا ہے کہ اصل ضرورت اس بنیادی ذہن کوڈھونڈنے کی ہے جو اس دہشت گردی کی منصوبہ بندی کرتا اور اس سے مطلوبہ نتائج حاصل کرتا ہے۔ اس مرکزی ذہن کی نشاندہی سے قبل سعودی عرب میں دہشت گردی کے بعض واقعات کی طرف اشارہ کرنا بھی مناسب ہوگا … سعودی عرب میں دہشت گردی اور اس کے مقاصد عراق پر حالیہ قبضہ کے ساتھ ہی سعودی عرب کا امن و سکون تہ و بالا ہوگیا… ٭ نومبر 2003ء میں ریاض میں پے در پے دھماکوں کے بعد مکہ مکرمہ میں بھی بم دھماکہ ہوا۔ ٭ اس سال یکم مئی کو سعودی عرب کے ساحلی شہر ینبع میں صبح 7 بجے چار حملہ آوروں نے آئل ریفائنری میں تین امریکی، دو برطانوی اورایک آسٹریلوی انجینئر سمیت 10/افراد کو ہلاک کردیا۔ حملہ آور امریکیوں کی لاشوں کو گلیوں میں گھسیٹتے رہے۔ پولیس فائرنگ میں تین حملہ آور ہلاک اور متعدد افراد زخمی ہوگئے۔ (روز نامہ نوائے وقت: 2مئی 2004ء) نوائے وقت نے اگلے روز اس دہشت گردی کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا : ”سعودی عرب میں دہشت گردی میں اسرائیلی پشت پناہی… سعودی ولی عہد نے کہاکہ اس حملے کے پیچھے اسرائیل کے ہونے کے 95 فیصد شواہد ہیں ۔ امریکہ نے عالم اسلام کے خلاف کروسیڈ شروع کیاہواہے اور اس جنگ میں اسرائیل اس کا دست ِراست ہے۔ درحقیقت ہماری ارضِ مقدس بھی عظیم تر اسرائیل کی مجوزہ حدود میں شامل ہے۔ عراق میں امریکہ کو جس جہادی جذبے کے مقابلے میں ناکامی ہورہی ہے، اسی کابدلہ وہ سعودی عرب میں دہشت گردی کراکے لے رہا ہے۔“ (نوائے وقت: 3 مئی) ٭ سعودی عرب کے مشرقی اور صنعتی شہر الخُبرمیں نامعلوم مسلح افراد نے ہفتہ 29 مئی کی صبح فائرنگ کرکے 8 غیر ملکیوں سمیت 17/افراد کو ہلاک کردیا۔ یہ فائرنگ تیل کمپنی کے تین کمپاوٴنڈز میں کی گئی۔ اس کارروائی کی ذمہ داری مبینہ طور پر القاعدہ نے قبول کی۔ (روزنامہ جنگ راولپنڈی، 30 مئی 2004ء)