کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 24
کے بعد کسی ردعمل میں ایسی کوئی بات کسی پلیٹ فارم پر رپورٹ ہوئی ہے؟ افسوس اس امرپر ہے کہ بعض جدت پسند حلقے اسی بات پر اپنا جواز ثابت کرنے پرتلے بیٹھے ہیں کہ وہ علماء اسلام کی کاوشوں پر ناقدانہ رویہ رکھتے ہیں او ران کو برملا برائی اور دہشت گردی سے منسوب کرتے ہیں ۔اس ادارتی تحریر میں موصوف قلم کار نے اپنے موقف کے بارے میں جو رجحان اوردلائل پیش کئے ہیں وہ خالصتاً بھارت کی متنازعہ شخصیت وحیدالدین کے افکار کا چربہ ہیں ۔ مولانا وحید الدین کا فکری امتیاز بھی یہی ہے کہ انہیں ہر برائی کاسراغ یا تو مسلمانوں کے طرزِ عمل میں ملتا ہے یا مسلم رہنماوٴں کے رویہ میں ۔ ان کی تحریروں میں یہ غلطی اور زیادتی کبھی غیر مسلموں سے سرزد ہوتی دکھائی نہیں دیتی…!! افسوس اس ملکی انتشار و دہشت کی گھڑی میں بعض لوگوں کو انصاف کی گواہی دینے کاتو حوصلہ نہیں لیکن علما پر برسنے اور ان کے ذمے وہ ناکردہ گناہ کا الزام لگانے کو ان کاقلم بے چین ہے۔ فإلى اللہ المشتكى محدث کے حالیہ شمارے میں بم دھماکوں کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہم فرامین ذکر کرکے وہ دینی موقف پیش کردیاگیاہے جو ان بم دھماکوں کے بارے میں ایک مسلمان کا ہونا چاہئے۔ ہماری رائے میں کسی مسلمان کوقتل کرنا اسلام کے سیاسی نظم کا اختیار ہے، اس اختیار کو عام مسلمان اپنے تئیں استعمال کرنے کے مجاز نہیں ۔ اشراق کے اداریہ نویس کو ہمارے یا دیگر مکاتب ِفکر کے تحریری موقف میں سے وہ حصے نشان زد کرنے چاہئیں جہاں سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ اس سے تشدد کو فروغ ملتا ہے یا دہشت گردی کے راستے ہموار ہوتے ہیں ۔ محدث کے انہی اوراق میں اس سے قبل مسئلہ تکفیر پر ایک اہم مضمون بھی شائع ہوچکا ہے جس کی رو سے کسی متعین فرد پرکفر کا حکم لگانے میں دلچسپی رکھنا اسلامی احکامات اور علما کی مسلمہ روایات سے انحراف ہے۔ (دیکھئے ’مسلمان کی تکفیر کامسئلہ‘ از ابوبکر جزائری ترجمہ از راقم، مارچ 1995ء) (3) دہشت گردی کے پس پردہ اصل عزائم سابقہ صفحات میں دہشت گردی کے جن واقعات کامختصر تذکرہ کیا گیا ہے ان کودرج ذیل حصوں میں تقسیم کیاجاسکتاہے : (1)ٹارگٹ کلنگ کے واقعات: ان میں بالترتیب مولانااعظم طارق، تین چینی انجینئر، مفتی شامزئی، منور سہرورد ی اور بنیامین رضوی شامل ہیں ۔ ایسے واقعات 7،8 ہیں ۔ جنرل