کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 23
نواوٴں کو ایسی سپورٹ دی کہ انہوں نے علما کو کھلے عام برا بھلا کہنا شروع کیا۔موجودہ فوجی حکومت کے دور میں یہی کام جناب جاوید احمد غامدی اپنے حواریوں سمیت انجام دے رہے ہیں ۔ چنانچہ حکومتی موقف کا اعادہ کرتے ہوئے انہوں نے اشراق کے شمارے جولائی2004ء کے اداریے میں حالیہ دہشت گردی کے زمینی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے وہی غلط روش اپنائی ہے جس سے اہل دین پر حرف آئے۔ اشراق کے اداریہ نویس لکھتے ہیں : ”دہشت گردی کے بارے میں یہ تصور عام ہے کہ یہ دینی علوم کی درسگاہوں میں جنم لیتی، مسجدوں اور امام بارگاہوں میں پروان چڑھتی اور پھر متشدد مذہبی تنظیموں کی شکل میں ملک کے کونے کونے میں پھیل جاتی ہے۔ منبروں اور جلسہ گاہوں سے کفر کے فتوے صادر ہوتے، واجب القتل کے نعرے لگتے ہیں اور مخالف نظریات کو ان کے حاملین سمیت صفحہ ہستی سے مٹا دینے کے عزائم ظاہر کئے جاتے ہیں ۔ اس کانتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عبادت گاہیں اللہ کی یاد میں کھڑے ہونے والوں کے لہو سے رنگین ہوتی ہیں اور مذہبی رہنماوٴں کے ساتھ عام شہری بھی بموں کا ایندھن بن جاتے ہیں ۔ اس اندوہناک صورت حال کا ایک بڑا محرک بعض مذہبی علما کا تشدد پسندانہ رویہ ہے ۔اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ اس صورتِ حال کی ذمہ داری علماے دین پرعائد ہوتی ہے تو اس کی بات کو غلط نہیں کہا جاسکتا… انہوں نے اپنے لئے جو کام منتخب کئے ہیں وہ سر تا سر یہی ہیں کہ اپنے نظریاتی مخالفین کے خلاف سادہ لوح لوگوں کو مشتعل کیا جائے۔ ان کی تکفیر کے فتویٰ صادر کئے جائیں اور انہیں واجب القتل ٹھہرایاجائے۔“ (اشراق ، جولائی 2004ء ص:2،5) اشراق کے اداریہ نگار نے ان سطور میں جن الزامات کا اظہار کیا ہے، قارئین خود ہی ملاحظہ کرلیں کہ کیا اُنہیں موجودہ دہشت گردی کا درست پس منظر قرار دیا جاسکتا ہے۔ راقم الحروف دینی مدارس اور دینی اجتماعات میں بارہا شریک ہوتا رہا ہے، آج تک کسی مذہبی اجتماع میں ہمیں ایسی باتیں سننے کااتفاق نہیں ہوا جن کا الزام موصوف نے علما کے خلاف عائد کیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ چند سال قبل شیعہ سنی فسادات کے دوران بعض جذباتی لوگوں نے شاذ و نادر اس لب و لہجہ کو اختیار کیا ہو، یا ردّ عمل میں انصاف کا دامن ان سے چھوٹ گیا ہو۔ لیکن اوّل تو وہ مذہبی جماعتوں کے نمائندہ نہیں کہلا سکتے، ثانیاً موجودہ کشیدہ ملکی حالات کا پس منظر تو یہ قطعاً نہیں ہے۔ کیا حالیہ سالوں میں تکفیر کاکوئی فتویٰ، واجب القتل کا کوئی نعرہ اور تشدد کی کسی دعوت کا سراغ بھی ہمیں اخبارات میں ملتا ہے، یا ان افسوسناک واقعات کے رونماہونے