کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 22
ہوتے ہیں ۔ ان کی ہلاکت سے معاشرے میں جو انتشار پیدا ہوتا ہے، وہ دیگر کئی افراد کی ہلاکت سے نہیں پیدا ہوتا۔ یہی معاملہ مساجد و دینی مراکز کا بھی ہے۔ عوام میں افراتفری اور دہشت پیدا کرنے کے لئے کسی دینی شخصیت کا قتل بہت موزوں رہتا ہے۔ (4)اس سے یہ مقصد بھی حاصل ہوتا ہے کہ عوام الناس میں دینی رجحانات ایک کڑی آزمائش قرار پاتے ہیں ، دین پر عمل مشکل اور دینی علم کا حصول ایک کڑی آزمائش بن جاتی ہے۔ نتیجتاً مساجد ویران اور علما ناپید ہوتے ہیں ۔ کیونکہ نامور دینی شخصیت ہونے کامطلب اپنے آپ کو ہلاکت کے لئے پیش کرنا ہے۔ یہ وہ وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر دہشت گرد دینی شخصیات اور دینی اجتماعات کو دہشت گردی کے لئے منتخب کرتے ہیں ۔ جناب صلاح الدین کی یہ رائے بالکل صائب ہے، چنانچہ موجودہ دہشت گردی میں بھی مفتی شامزئی اور شیعہ امام بارگاہوں پر حملوں نے شدت کا جو تاثر قائم کیا ہے، وہ اس سے قبل موجو دنہیں تھا۔ خصوصاً 30 اور 31 مئی کو اسی نوعیت کے دو واقعات نے پوری قوم کی دہشت گردی کے ناسور کی طرف بھرپور توجہ مبذول کی۔ بعض نام نہاد دینی حلقوں کاافسوسناک کردار ہماری رائے میں حالیہ دہشت گردی کے مسلسل واقعات ایک منظم منصوبہ بندی کا حصہ ہیں جن کے باہمی تعلق اور تسلسل کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ دہشت گردی کے ان واقعات کاتنوع بھی کسی ایک گروہ کی غمازی نہیں کرتا۔ ان واقعات کے پس پردہ کون ہے اور اس کے مذموم مقاصد کیا ہیں ، اس بحث کو موٴخر کرتے ہوئے دینی طبقات کو فرقہ وارانہ دہشت گردی سے تعبیرکرنے کی کوششوں پر ہم اپنی بات کو مکمل کرتے ہیں ۔ حکومتی اور عالمی مفاد اس امر میں ہے کہ اس دہشت گردی کو اسلام سے منسوب کیاجائے اور اسلام کو ایک دہشت گرد دین قرار دیا جائے۔ مسلمانوں میں اسلام کو کھلے عام مطعون کرنا دیگر مسلمانوں کے لئے شاید ممکن نہ ہو چنانچہ یہاں اسلام کے نام لیواوٴں کو ’دہشت گرد‘ قرار دیا جاتا ہے۔ اگر اسلام کے علمبردار علما دہشت گرد قرار پاتے ہیں تو اس کالازمی نتیجہ اسلام پر طعن ہے یا لوگوں کی اسلام سے دوری ہے۔ بدقسمتی سے حکومتوں کو اس سے قبل بھی ایسے نام نہاد مذہبی گروہ دستیاب رہے جو ان کی زبان بول کر حکومتی مفادات کی تکمیل کرتے رہے ہیں ۔ پاکستان کی پہلی فوجی حکومت (صدر ایوب) نے اپنے دور میں غلام احمد پرویز اور اس کے ہم