کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 21
خوری اور کسی جج کی انصاف فروشی سے محکمہ پولیس یا عدالت پر الزام ثابت نہیں ہوتا عین اسی طرح کسی دینی وضع قطع کے حامل فرد کا پرتشدد کارروائی کرنا دینی جماعتوں کو ملوث نہیں کرتا۔ یہاں یہ بھی واضح رہنا چاہئے کہ کسی عبادت گاہ پرحملے کی لازمی وجہ مذہبی فرقہ واریت نہیں ہوسکتی بلکہ اجتماعی طور پر معاشرے کو خوفزدہ او ر ہراساں کرنے کے لئے جب مساجد جیسے مراکز امن کو بھی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے تو اس سے عوام میں خوفناک انتشار اور خوف و دہشت کو ہوا ملتی ہے۔ ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ کوئی مسلمان ربّ کے حضور سجدہ ریز نمازیوں پر حملہ کرنے کی واردات کا عام حالات میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ انتہائی غیر معمولی حالات میں جب فکرو ذہن کی صلاحیتوں پر دوسروں کاقبضہ ہوجائے یا کوئی غیر معمولی مجبوری سامنے آجائے، تب بھی ایک مسلمان کے لئے ایسا کرنا سوہانِ روح سے کم نہیں ہوتا۔ مذہبی دہشت گردی کے مقاصد یہاں تکبیر کراچی کے شہید مدیر صلاح الدین کے ایک مضمون کامرکزی خیال پیش کرنا مناسب ہوگا جس میں انہوں نے دہشت گردی اور مذہبی منافرت کے باہمی تعلق پر اپنا نقطہ نظر پیش کیا ہے۔ جناب صلاح الدین کی رائے قابل توجہ ہے جس کا خلاصہ یہ ہےکہ کسی دینی شخصیت کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے سے وہ غیر معمولی مقاصد حاصل ہوتے ہیں جو دوسری دہشت گردی سے پورے نہیں ہوتے، مثال کے طور پر (1)مذہبی دہشت گردی کا پہلا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے اسلامی لیڈر شپ کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ عالمی سطح پر اسلام کے خلاف مہم کا کامیاب دفاع کرنے کے لئے ایک دینی رہنما کی شخصیت مرجع خلائق ہوتی ہے۔ لوگ اس کے مبارک کلمات سے روشنی حاصل کرتے اور عمل و کردار کاحوصلہ پاتے ہیں ۔ دینی شخصیات کے قتل سے گویا دینی حلقوں اور جماعتوں کو فکری و ذ ہنی طو ر پر یتیم کردیاجاتاہے۔ اسی طرح ملک و بیرونِ ملک اسلام دشمن کوششوں میں کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔ (2)مذہبی دہشت گردی کو فروغ دینے کادوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے لوگ مذہبی شخصیات اور اسلام سے بدگمان ہوتے ہیں ۔ان کے ذمہ دہشت گردی اور منافرت کا الزام لوگوں کے دلوں میں اسلام اور اس کی قدر و منزلت کم کردیتا ہے۔ (3)ایک دینی شخصیت اسلامی معاشرے کا مرکز ہوتی ہے۔ لوگ ان سے نورِ ہدایت کے متلاشی