کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 20
مولانافضل الرحمن وغیرہ کرتے رہے جبکہ مولانااعظم طارق وغیرہ کو باوجود اصرار کے اس نمائندگی میں کامیابی نہ ہو سکی۔ ایسے ہی دیگر جماعتوں کا بھی حال ہے جیسا کہ جماعۃ الدعوۃ نے ملکی منافرت میں کبھی اپنا کردارادا نہیں کیا، اس کے باوجود اہل حدیث مکتب ِفکر کی اسے نمائندہ جماعت کہنا مناسب نہیں ۔کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ کے بارے میں عام دیوبندی دینی راہنماؤں کا کیا موقف ہے اور وہ اسے کس نظر سے دیکھتے ہیں ، اس کا اظہار مولانا زاہد الراشدی کے انہی دنوں شائع ہونے والے ایک انٹرویو سے ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ مولانا راشدی مولانا مفتی محمود کے طویل عرصہ سیکرٹری اور رفیق کار ہونے کے علاوہ معرف دیوبندی علمی شخصیت مولانا سرفراز صفدر کے فرزند ہیں ، گویا سیاسی بصیرت کے علاوہ علمی ذوق سے بھی بھرہ ورہیں ۔ مزید برآں آپ گوجرانوالہ کے حنفی مدرسہ نصرۃ العلوم کے شیخ الحدیث ہونے کے علاوہ ملکی سطح پر علما دیوبند کے مستند ترجمان کی حیثیت بھی رکھتے ہیں ۔ان کا نقطہ نظر دیوبندی مکتب ِفکر کے خیالات کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ یہ موقف مولانا کے زیر ادارت ماہنامہ الشریعہ کے شمارہ جولائی 2004ء میں شائع ہوا ہے ، فرماتے ہیں : ”ہم نے سپاہ صحابہ کے شدت پسندانہ طریق کار سے ہمیشہ اختلاف کیا ہے اور مختلف مضامین میں اس کے اظہار کے ساتھ ساتھ اس کے رہنماؤں مثلاً مولانا حق نواز جھنگوی، مولانا ضیاء الرحمن فاروقی اور مولانا اعظم طارق کے ساتھ براھ راست گفتگو میں بھی انہیں اپنے موقف سے آگاہ کیا ہے … ہم شیعہ کے خلاف کافر کافر کی مہم، تشدد کے ساتھ ان کو دبانے او رکشیدگی کا ماحول پیدا کرنے کے حق میں نہیں ہیں ۔ ہمارا اس حوالہ سے موقف یہ ہے کہ عقائد او رتاریخی کردار کے حوالہ سے باہمی فرق اور فاصلہ کو قائم رکھتے ہوئے بھی ایک دوسرے کو برداشت کرنے او ر استدلال و منطق کے ساتھ اپنا موقف پیش کرنے کا راستہ ہی صحیح اور قرین عقل ہے۔ اور اس حوالہ سے ہمیں امت ِمسلمہ کے اجتماعی رویے سے انحراف نہیں کرنا چاہئے۔“(صفحہ 5) ٭ یہاں اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ بعض کارروائیوں میں دینی وضع قطع رکھنے والے لوگوں کے ملوث ہونے سے یہ تاثر قائم کرنا اور اس الزام کی تصدیق کرنا کہ یہ دینی یا مذہبی فرقہ وارانہ دہشت گردی ہے، درست اور مبنی برانصاف رویہ نہیں ہے … !! مختلف واقعات میں گرفتار ہونے والے حضرات سے دینی جماعتوں کا اس فرقہ واریت پر مبنی تشدد و دہشت گردی میں ملوث ہونا لازمی امر نہیں ۔ جس طرح کسی پولیس کانسٹیبل کی رشوت