کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 18
کون؟‘ کے زیر عنوان اشتہار شائع کراتے ہوئے اپنا یہ موقف نواے وقت میں پیش کیا : ”مفتی نظام الدین شامزئی کی شہادت اور مسجد علی رضا کی شہادتوں کے افسوسناک واقعات ایک ہی سلسلے کی کڑی ہیں ۔ الحمدللہ ان واقعات پر اہل سنت او راہل تشیع کے چوٹی کے علما دینی رہنماوٴں نے فہم و فراست اور حلم و تدبر کا ثبوت دیتے ہوئے ان واقعات کو بجا طور پر اسلام دشمن طاقتوں کی کارستانی قرار دیا ہے اور عام مسلمانوں کو صبروتحمل کا درس دیا ہے۔“ (5 جون) ٭ جماعة الدعوةکے امیر حافظ محمد سعید نے 11 جون کو نوائے وقت میں اپنے بیان میں کہا : ”ہم کراچی میں دہشت گردی کے واقعات کو جہاد نہیں سمجھتے، واردتوں کاتعلق مجاہدین سے جوڑنا درست نہیں ، حکمران عالمی سازش کو سمجھیں اور منفی پروپیگنڈہ کاشکار نہ ہوں ۔“(صفحہ آخر) ٭ گذشتہ صفحات میں روزنامہ نوائے وقت کا ادارتی موقف بھی اسی کی تائید میں پیش کیا جاچکا ہے، دیکھئے صفحہ نمبر9 شمارہ ہذا ٭ کور کمانڈر کراچی پر حملے کے بارے میں وزیراطلاعات شیخ رشیداحمد کا یہ بیان قومی اخبارات میں شائع ہوا کہ ”یہ حملہ وانا کی صورت حال کا نتیجہ نہیں نہ ہی القاعدہ سے اس کا تعلق ہے۔ بلکہ اس کے پس پردہ دیگر مقاصد کارفرما ہیں ۔“ (نوائے وقت: 12 جون) دینی جماعتوں کے ان بیانات کے باوجود نہ صرف وزیرداخلہ نے کورکمانڈر پر حملے کو وانا کے جنگجووٴں سے جوڑا (نوائے وقت: 12جون) بلکہ 16 جون کو قومی اسمبلی میں اس موقف کا اعادہ کرتے ہوئے ملزمان کو پکڑنے کا بھی انکشاف کیا۔ اپنے پالیسی بیان میں انہوں نے جنداللہ گروپ کو اس کاذمہ دار قرار دیا۔ (جنگ: 17 جون) ٭ ایسے ہی صدر جنرل پرویز مشرف نے بھی دہشت گردی کی روک تھام کے سلسلے میں مساجد اور مدارس کے غلط استعمال کو روکنے، ہر قسم کی چندہ مہم کا سدباب کرنے اور لاوٴڈ سپیکروں ، پوسٹروں اور پمفلٹوں کے ذریعے تنگ نظری پھیلانے والوں پر کڑی نظر رکھنے کی ہدایت کی۔ (جنگ، اداریہ:17 /جون2004ء) جیسا کہ ہم گذشتہ صفحات میں ذکر کرچکے ہیں کہ دو درجن سے زائد دہشت گردی کے واقعات میں صرف پانچ واقعات کا تعلق مذہبی نوعیت کا ہے جبکہ اس تمام تر دورانئے میں کسی فرقہ وارانہ سرگرمی، بیان بازی اور مذہبی منافرت کا کوئی واقعہ روبہ عمل نہیں آیا۔ بلکہ دینی رہنماوٴں نے ان واقعات میں عوام کو صبر و تحمل اور دہشت گردی کی نوعیت سمجھنے کی طرف توجہ دلائی۔ اسکے