کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 17
پر کرتے رہنا چاہئے۔“ (’دہشت گردی ‘از سلطان شاہد: ص104،107) جہاں تک پاکستان میں دہشت گردی کے ’حالیہ واقعات‘کا تعلق ہے تو پاکستان میں فوجی حکومت اور اس کے ساتھ مقتدر طبقے وہی زبان استعمال کررہے ہیں جو اس مغربی موقف کو تقویت دے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں کسی بھی حوالے سے دہشت گردی ہو، پولیس کے ذمہ داران اس کو شیعہ سنی فسادات کے حوالے کرکے گویا سند ِجواز عطاکردیتے ہیں ۔ فرقہ وارانہ فسادات ظاہر کرنے کاایک مطلب یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے یہاں امن و امان کی ذمہ داری سے بری ہیں یا استطاعت نہیں رکھتے۔ دہشت گردی کے حالیہ واقعات میں بھی پولیس نے اسی روایت کو نبھایا ہے۔ چنانچہ کور کمانڈر کراچی پر حملہ کا واقعہ ہو یا بنیامین رضوی کے قتل کاحادثہ، پہلے حملے کے بارے میں کراچی میں ڈاکٹر برادران کو گرفتار کرکے موردِ الزام ٹھہرایا گیا ہے (4 جولائی) اور بنیا مین رضوی کے واقعہ کو بھی شیعہ سنی فسادات کا تنازعہ بنا کر شیعہ حضرات پر اس کاملبہ ڈالا گیا ہے۔(نوائے وقت: 3 جولائی) قبل ازیں جنرل پرویز مشرف اور کراچی میں امریکی کلچرل سنٹر کے سامنے دھماکے کے سلسلے میں حرکت المجاہدین اور سپاہ صحابہ کے دو ، دو رکن گرفتار کئے جاچکے ہیں ۔(22 مئی) تین روز بعدکراچی میں پھر حرکت المجاہدین کے مزید 6 کارکنوں کو گرفتار کیا گیا جن کا یہ جرم قرار دیا گیا کہ وہ دو سال قبل امریکی قونصلیٹ پرحملے اور اپریل 2002ء میں مشرف کے موٹر کیڈ پر حملے کے مجرم ہیں ۔ (25 مئی) پولیس کی دست درازی سے خائف ایک حافظ قرآن نوجوان نے حیدرآباد میں پریس کانفرنس میں پولیس سے تحفظ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اسے بلاوجہ ملوث کرنا چاہتی ہے، خدارا اسے پولیس سے بچایا جائے۔ (25مئی 2004ء) مذکورہ بالا واقعات میں تاحال کسی الزام کی تصدیق نہیں ہوسکی بلکہ ملزمان نے ابھی تک دہشت گردی کے ان واقعات میں سے کسی حادثہ کا اقرار نہیں کیا۔ ڈاکٹر برادران کا موقف یہ تھا کہ ہم نے افغان جنگ کے دوران حکومت کی مرضی سے زخمیوں کے کیمپ لگائے۔ دیندار ہونے کے ناطے حکومت ہماری گرفتاری سے مذہبی گروہوں کو ملوث کرنا چاہتی ہے۔ حرکت المجاہدین نے اپنے اوپر عائد الزامات سے انکار کرتے ہوئے کہاکہ ہم کسی مسجد میں حملہ کرنے اور نمازیوں کو شہید کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ٭ دہشت گردی کے ان واقعات کے تناظر میں تنظیم اسلامی لاہور نے ’اصل دہشت گرد