کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 13
پولیس کی سکیورٹی جیپ کے چہ اہلکار بھی دہشت گردوں کانشانہ بن گئے۔ اس دہشت گردی اور جنرل پرویز مشرف پر دہشت گردی کے واقعات میں ایسی حیرت انگیز مماثلتیں ہیں گویا ان کو ایک ہی تنظیم نے پلان کیا ہے : (1)اوّل تو دونوں واقعات میں محافظ سمیت تمام سکیورٹی ہلاک ہوگئی لیکن اصل ہدف کابال بھی بیکا نہ ہوا۔ (2)دونوں میں ایسا ریموٹ کنٹرول بم استعمال کیاگیا جو موبائل فون سے منسلک ہوتاہے اور فون پر گھنٹی ہونے سے پھٹتا ہے۔ اس واقعے میں بھی بارود سے بھری گاڑی یا کلفٹن پل میں نصب شدہ موبائل فون بم ریموٹ کے ناکارہ ہونے کی وجہ سے نہ پھٹ سکا۔(کالم کراچی از یوسف خان؛ نوائے وقت: 16 جون ) بہرحال دہشت گردی کے اس واقعہ سے امن و امان کے حکومتی دعووٴں کی قلعی کھل گئی اور سیاسی رہنماوٴں نے اس الزام کا اعادہ کیا کہ کراچی میں امن و امان قائم کرنے میں انتظامیہ اور سکیورٹی ادارے بے بس ہوچکے ہیں ۔ (نوائے وقت:11 جون2004ء) (7) فوجی حکومت کے بعد سیاسی جماعتوں کو دہشت گردی کی لپیٹ میں لانے کے لئے کراچی میں 17 جون کو بینظیر کے معتمد ِخاص منور سہروردی کو نشانہ بنایا گیا۔ گرومندر کے قریب بنک کے سامنے اپنی کار سے اُترنے کے دوران ان پر دو افراد نے حملہ کیا اور انہیں تین گولیاں لگیں ۔ ان کی چیخ و پکار پر ایک رکشہ ڈرائیور نے انہیں آغا خاں ہسپتال پہنچایا جہاں وہ دم توڑ گئے۔ان کے اس قتل کے پس پردہ عوامل میں بے نظیربھٹو نے مشرف، متحدھ اور ڈاکٹر قدیر کے خلاف کارفرما لابی کا نام لیا ہے۔ (18جون) جبکہ کراچی عوام نے احتجاج کرتے ہوئے ان کے قتل کا ملزم متحدہ کو ٹھہرایا۔ یاد رہے کہ اس سے قبل جماعت اسلامی بھی کراچی کی دہشت گردی میں متحدہ کو ہی مورد ِالزام ٹھہرا چکی ہے۔ منور سہروردی کے قتل پر تبصرہ کرتے ہوئے سید منور حسن نے قرار دیا کہ متحدہ ایک بار پھربوری بند لاشوں کاکلچر شروع کرنا چاہتی ہے۔ (22 جون) منور سہروردی کے بہیمانہ قتل کے خلاف پیپلزپارٹی نے تین روز سوگ کا اعلان کیا جبکہ مشتعل کارکنوں نے پتھراوٴ کے علاوہ درجوں گاڑیوں کو نقصان پہنچایا۔ اسی طرح 21 جون کو پیپلزپارٹی نے پارلیمنٹ ہاوٴس کے باہر مظاہرہ بھی کیا جس سے مخدوم امین فہیم اور قومی اسمبلی کے اراکین زمرد خاں ، فوزیہ حبیب اور رخسانہ بنگش وغیرہ نے بھی خطاب کیا۔