کتاب: محدث شماره 281 - صفحہ 12
”مشرف کے دور میں دہشت گردی کی 399 وارداتیں ہوئیں ۔ فوجیوں سمیت 1141/ افراد جاں بحق ہوئے اور 2398/ افراد زخمی ہوئے۔ یہ حقائق نامہ مرکزی سیکرٹری اطلاعات محمد صدیق الفاروق نے جمعہ کی شام ایک پریس کانفرنس میں جاری کیا۔“ (نوائے وقت: ہفتہ 12 جون) (5)بی بی سی کے تجزیے اور رپورٹ کے مطابق کراچی کے حالیہ دہشت گردی کے واقعات میں علی محمد مہر کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیاکیونکہ وہ ان مخصوص حالات میں کمزور وزیراعلیٰ سمجھے جاتے تھے جن سے اس سلسلے میں صوبائی کنٹرول کی توقع مشکل تھی۔ چنانچہ انہوں نے 7 جون کو اپنا استعفیٰ پیش کیا، جبکہ دوسری طرف متحدہ کے فاروق ستار کے بقول لندن میں ارباب غلام رحیم کے الطاف حسین سے ملاقات اور مشوروں کے بعد انہیں سندھ کی وزارتِ اعلیٰ کاقلمدان عطاکیا گیا۔ جنہوں نے امن و امان کی صورتِ حال بہتر کرنے کا عوام سے وعدہ کیا۔ (روزنامہ نوائے وقت، 8 جون ) یہ علیحدہ بات ہے کہ ان کی وزارتِ اعلیٰ کے دو روز بعد سنگین دہشت گردی کے واقعات پھر سے شروع ہوگئے۔ باخبرذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ کی یہ تبدیلی صدر مشرف کی کراچی کے حالات پر برہمی کا نتیجہ تھی۔ دہشت گردی کے دیگر واقعات دہشت گردی کے سابقہ واقعات کی نوعیت دو طرح کی ہے: مذہبی شخصیات و اجتماعات اور قومی تنصیبات وعوامی سہولیات کونقصان پہنچانا۔ لیکن یکم جون کے بعد دہشت گردی نے اپنا رخ بدلتے ہوئے سیاسی شخصیات اور حاکم طبقے کوبھی اپنا کارروائیوں کانشانہ بنایا۔ (6)دہشت گردی کی 10 جون کو ہونے والی کارروائی نہ صرف ان کے بلا کے اعتماد پردلالت کرتی ہے بلکہ حکومتی مشینری کے لئے اس میں کھلا چیلنج اور للکار بھی موجود ہے۔کراچی میں کلفٹن پل کے نزدیک کورکمانڈر سندھ لیفٹیننٹ جنرل احسن سلیم کے فوجی قافلے پر حملہ میں سات فوجیوں سمیت 12/افراد جاں بحق ہوگئے۔ تفصیلات کے مطابق کورکمانڈر اپنی رہائش گاہ سے کورہیڈرکوارٹرز جارہے تھے، جونہی ان کے قافلہ کی گاڑیاں کلفٹن پل پرچڑھنے کے لئے مڑیں ، ان پرگھات لگائے دہشت گردوں نے خود کار اسلحہ سے گولیوں کی بوچھاڑ کردی، سینکڑوں راوٴنڈ چلائے گئے۔ خطرناک پہلو یہ ہے کہ دہشت گرد گولیوں سے چھلنی اپنی وین میں کئی کلومیٹر کا فیصلہ طے کرکے ڈیفنس ویو تک پہنچ گئے مگر کسی نے انہیں روکا تک نہیں ۔ یہ واردات اس علاقہ میں ہوئی جسے پولیس نے سکیورٹی زون قرار دیا ہواہے۔ اس قافلے میں