کتاب: محدث شماره 280 - صفحہ 99
ہے۔ اسی طرح اسلام میں اختیارات کا حصول بھی پسندیدہ امر نہیں ۔ اسلام اوّل تو اختیار کے بجائے مسؤلیت اور ذمہ داری کا اُسلوب اختیار کرتا ہے اور اسلام کی رو سے ہر شخص اپنے ماتحت پر مسؤل ہے۔[1] ثانیاً اسلام اختیارات ان لوگوں کو نہیں دیتا جو خواہاں ہوں اور اس کے حصول کی تدبیر کریں ۔[2] اگر جدید دور کا متعارف کردہ فلاح کا تصور مان لیا جائے تو اس مزعومہ تصورِ فلاح پر خود نبی کریم، عہد ِنبوی اور دورِخلافت راشدہ پورا نہیں اُترتا جبکہ یہ ادوار مسلم تاریخ کے زرّیں ادوار ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذاتی طورپر مالدار [3]نبی بننا پسند نہ کیا۔ اور اپنی تمام تر زندگی انتہائی سادگی میں گزاری حتیٰ کہ وفات کے وقت بھی آپ کی زرہ رہن[4] رکھی ہوئی تھی۔ اسلام جس دنیوی زندگی کو کامیابی اور فلاح قرار دیتا ہے، وہ پرسکون زندگی ہے۔پرسکون زندگی کے اہم کوائف درج ذیل ہیں : (1) انسان کا تعلق ربّ تعالیٰ سے قائم ہو۔ اس کے بغیر فطرتِ انسانی ہردم تشنہ رہتی ہے۔ ربّ کے تعلق سے جڑنے والا انسان زندگی کی ہر آزمائش کو ہنسی و خوشی گزار لیتا ہے۔ (2) انسان کا اپنے عزیز و اقارب اور معاشرے سے تعلق حسن معاملت اور محبت و اخلاق کی بنیاد پر استوار ہو۔ کیونکہ انسان کی فطرت اجتماعیت پسند ہے، کوئی شخص اکیلا حقیقی مسرت حاصل کرنے پر قادر نہیں ، کسی پر زیادتی[5] نہ ہو اور دوسروں کے لئے خیر خواہی[6] ہو۔ (3) انسان صحت مند ہو، اپنے اور دوسروں کے لئے مفید ہو۔ اس کا ہردم کسی مفید مصروفیت میں صرف ہو۔ یہ وقت اور صلاحیتوں کا ایسا حق ہے جس کی بابت روزِ قیامت[7] سوال کیا جائیگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:دو نعمتوں کااکثر لوگ حق ادا نہیں کرتے، صحت اور فراغت[8]
[1] (( کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ )) (بخاری: ۸۹۳) [2] (( إنا وﷲ لا نولی علی ہذا العمل أحدا سألہ ولا أحدا حرص علیہ )) (مسلم: ۱۷۳۳) [3] عن عائشۃ قالت کنت أسمع انہ لا یموت نبی حتی یخیر بین الدنیا والآخرۃ فسمعت النبی یقول فی مرضہ الذی مات فیہ … فظننت أنہ خُیِّر(بخاری:۴۴۳۵) [4] توفی رسول ﷲ ودرعہ مرہونۃ عند یہودي بثلاثین صاعا من شعیر(بخاری:۲۹۱۶) [5] (( المسلم أخو المسلم لا یظلمہ ولا یسلمہ … )) (بخاری ۲۴۴۲) [6] (( لا یؤمن أحدکم حتی یحب لأخیہ ما یحب لنفسہ )) (بخاری ۱۳) [7] (( لا تزول قدم ابن آدم یوم القیامۃ من عند ربہ حتی یسأل عن خمس عن عمرہ فیم أفناہ))(ترمذی۲۴۱۶) [8] ((نعمتان مغبون فیہما کثیر من الناس:الصحۃ والفراغ))(بخاری: ۶۴۱۲)